واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکہ کا کہنا ہے کہ روس ایک نیا اینٹی سیٹیلائٹ (سیٹیلائٹ شکن) ہتھیار تیار کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ ماسکو نے ابھی اس پروگرام کو شروع کرنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کا یہ بیان ایک سینئر ریپبلکن کی جانب سے ’قومی سلامتی کو لاحق سنگین خطرے‘ کے بارے میں جاری مبہم انتباہ کے بعد آیا ہے۔
بی بی سی کے امریکی پارٹنر سی بی ایس نیوز کی رپورٹ کے مطابق کہ یہ ہتھیار خلا پر مبنی ہے اور سیٹلائٹ کو نشانہ بنانے کے لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے۔
جمعرات کے روز، وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اس کی تصدیق نہیں کی اور اس خطرے کے بارے میں مزید تفصیلات پیش کرنے سے انکار کر دیا۔
ماسکو نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ نئے روسی ہتھیاروں کے دعوؤں کو کانگرس کو یوکرین کی اضافی امداد منظور کرنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
جان کربی، جنھیں حال ہی میں صدر جو بائیڈن کے معاون اعلیٰ کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے، نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی عوام کو اس ہتھیار سے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔
’ہم کسی ایسے ہتھیار کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں جو انسانوں پر حملہ کرنے یا یہاں زمین پر تباہی پھیلانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہو۔‘
ان کا کہنا ہے کہا کہ صدر بائیڈن کو اس انٹیلی جنس اطلاع کے بارے میں بریفنگ دی گئی ہے اور یہ کہ امریکی انتظامیہ اس ہتھیار کی تیاری کو ’بہت سنجیدگی سے‘ لے رہی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ صدر بائیڈن نے پہلے ہی اس خطرے پر ’روس کے ساتھ براہ راست سفارتی رابطہ‘ قائم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
امریکی کانگرس کی ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین مائیک ٹرنر نے بدھ کے روز قومی سلامتی کو لاحق ایک سنگین خطرے کے بارے میں ایک خفیہ انتباہ جاری کیا، جس کے بعد امریکی دارالحکومت میں افواہوں کی لہر دوڑ گئی۔
بعد ازاں جمعرات کو، مائیک ٹرنر اور کمیٹی کے دیگر افراد نے اس معاملے پر مزید بات کرنے کے لیے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے ملاقات کی۔
میٹنگ کے بعد مائیک ٹرنر کا کہنا تھا کہ ’ہم سب یہ تاثر لے کر جا رہے ہیں کہ انتظامیہ اسے بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور انتظامیہ کے پاس ایک منصوبہ ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس منصوبے پر عملدرآمد کے وقت اس کی حمایت کریں گے۔
سننے میں خلائی ہتھیاروں کی باتیں ایسے لگتی ہیں جیسے کسی سپر ہیرو فلم یا سائنس فکشن ناول کی بات ہو، مگر فوجی ماہرین طویل عرصے سے خبردار کرتے آئے ہیں کہ اب خلا میں جنگ کا اگلے میدان کا امکان ہے۔
ہم اس خطرے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
اب تک جان کربی کے علاوہ، امریکی حکومت کے کسی بھی اہلکار نے ابھی تک عوامی سطح پر اس خطرے کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں۔
قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے تجویز پیش کی کہ خاموشی جان بوجھ کر اختیار کی گئی ہے۔ بدھ کے روز انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ کو پہلے ان ’ذرائع اور طریقوں‘ کو ترجیح دینی چاہیے جو اس کی سکیورٹی ایجنسیاں خطرے کے بارے میں انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
نیویارک ٹائمز، اے بی سی اور سی بی ایس نے رپورٹ کیا کہ یہ انتباہ روس کی جانب سے جوہری صلاحیت کے حامل ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق ہے جسے خلا میں امریکی سیٹلائٹس کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس ہتھیار کو تعینات کردیا گیا ہے، لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اس خطرے کو ’بہت سنجیدگی سے‘ لے رہا ہے۔
کئی برسوں سے امریکی حکام اور ایرو اسپیس کے ماہرین نے خبردار کرتے آئے ہیں کہ روس اور چین خلا میں مسلسل اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ امریکہ کی سطح پر آنا چاہتے ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز نے گذشتہ سال ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ روس اینٹی سیٹلائٹ (ASAT) ہتھیاروں کی ایک رینج تیار کر رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ان ہتھیاروں میں ایک ایسا میزائل بھی شامل ہے جس کا نومبر 2021 میں سوویت دور کے ایک ناکارہ سیٹلائٹ کو کامیاب تجربہ کیا گیا تھا۔
پینٹاگون کے سابق اعلیٰ انٹیلی جنس اہلکار کیری بنگن اس رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرین میں اپنی جنگ کے دوران، روس پہلے ہی سیٹلائٹ کمیونیکیشن کو روکنے کے لیے سائبر حملے اور سٹیلائٹ سگنلز جام کرنے جیسے مختلف طریقے استعمال کر چکا ہے۔
کیا عوام کو اس بارے میں پریشان ہونا چاہیے؟
سینئر قانون سازوں بشمول ہاؤس سپیکر مائیک جانسن کا کہنا ہے کہ عوام کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
مائیک ٹرنر بھی اس خطرے کا اعلان کرنے پر کچھ تنقید کی زد میں آئے ہیں۔ ساتھی ریپبلکن اینڈی اوگلس نے ان پر امریکی عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں لا پرواہی برتنے کا الزام لگایا ہے۔
تاہم ماہرین اور سابق حکام نے خبردار کیا ہے کہ امریکی سیٹلائٹس کو کسی بھی قسم کے خطرے کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اپنے کسی بھی ممکنہ عالمی حریف سے کہیں زیادہ، امریکی فوج نگرانی اور میزائل لانچ کی کھوج سے لے کر سمندر اور فضا میں نیویگیشن، GPS کے ذریعے گائیڈڈ بموں اور میدان جنگ میں مواصلات تک ہر چیز کے لیے سیٹلائٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
بنگن، جو امریکی محکمہ دفاع میں دوسرے اعلیٰ ترین انٹیلی جنس اہلکار کے عہدے پر فائز رہی ہیں، کا کہنا تھا کہ ’ہماری فوج، اور جس طرح سے وہ لڑتی ہے اور جو ہتھیار ہم بناتے ہیں، ان سب کا انحصار خلائی صلاحیتوں ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے بغیر، ہم بہت مشکل حالات میں ہوں گے۔ ہم اس طرح نہیں لڑ سکیں گے جس طرح ہم پچھلے 30 یا 40 سالوں میں لڑتے آئے ہیں۔‘
سویلین دنیا کا بھی کافی انحصار سیٹلائٹس پر ہے۔ سیٹلائٹس کو روزمرہ کے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ GPS مدد سے چلنے والی سواری اور خوراک کی ترسیل سے لے کر موسم کی پیشن گوئی، زراعت اور مالی لین دین، ہر چیز کا انحصار سیٹلائٹ پر ہے۔
سیٹیلائٹس ہماری روزمرہ کی زندگی کے لیے لازمی ہیں، بنگن نے مزید کہا کہ ’امریکی عوام، اور دنیا بھر کے شہری، خلا پر انحصار کرتے ہیں اور وہ اس بارے میں جانتے بھی نہیں ہیں۔‘
کیا خلائی ہتھیاروں کے بارے میں کوئی اصول ہیں؟
امریکہ، روس اور چین پہلے ہی دنیا بھر کے سیٹلائٹس پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن، اصولی طور پر، وہ وہاں جوہری ہتھیار استعمال نہیں کر سکتے۔
یہ تینوں ممالک سنہ 1967 کے بیرونی خلائی معاہدے کے دستخط کنندگان ہیں، جو ممالک کو مدار میں کوئی بھی ایسی چیز بھیجنے سے منع کرتا ہے جو ’جوہری ہتھیار یا کسی بھی قسم کے بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کو‘ لے جا سکتی ہے۔
امریکہ کے سابق نائب معاون وزیر دفاع مک مِلروئے نے کہا کہ یہ معاہدہ موجودہ جغرافیائی سیاسی ماحول میں تحفظ کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کرتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’روس نے اپنے دستخط کردہ معاہدوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے یوکرین میں تمام بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کے برخلاف فوجی طاقت کے استعمال کا عزم ظاہر کیی ہے۔‘
’وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہتے اور نہ ہی اپنے معاہدوں کی پاسداری کرتے ہیں۔‘
میتھیو کروئینگ امریکہ کی اسٹریٹجک پوزیشن پر کانگریس کے کمیشن کے کمشنر ہیں۔ وہ بش، اوباما اور ٹرمپ انتظامیہ کے دوران دفاعی اور انٹیلی جنس کے عہدوں پر بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ فطری بات ہے کہ خلاء اب تمام فوجی قوتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب تک تو انسان ایک طرح سے محض خلا کی دریافت کر رہے تھے۔ ’لیکن اب ہم ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ہم خلاء کی کمرشلائزیشن کو دیکھ رہے ہیں، اور ابھی تو صرف شروعات ہی ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ اگلے مرحلے میں دنیا بھر کے ممالک کی توجہ خلاء کو ‘محفوظ’ بنانے پر مرکوز ہوگی۔
کروئینگ کہتے ہیں کہ اب تک ہم یہ تسلیم کرتے آئے ہیں کہ سمندر اور آسمان تجارتی سرگرمیوں کے لیے آزادانہ طور پر میسر ہیں۔ ‘مثالی طور پر، اگلے 30 سال ہم خلاء کو بھی ایسی جگہ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں ہم سفر اور کاروبار کر سکیں، اور شاید خلا میں رہ بھی سکیں۔’
‘ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ یہ ایک محفوظ ڈومین ہے۔’