ڈیموکریسی انڈیکس 2023: پاکستان کے نظام کو ’آمرانہ‘ کیوں قرار دیا گیا ہے؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) دُنیا بھر میں جمہوری نظام کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں رائج طرزِ حکمرانی کو ’اتھاریٹیریئن‘ یعنی آمرانہ قرار دیا ہے۔

بین الاقوامی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کے انٹیلیجنس یونٹ کی ’ڈیموکریسی انڈیکس 2023‘ رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 150 سے زائد ممالک میں رائج نظامِ حکومت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

گذشتہ برس ’دی اکانومسٹ‘ کی رپورٹ میں پاکستان کا جمہوریت میں 105 واں رینک تھا اور یہاں قائم حکومت کو ایک ’ہائبرڈ‘ یعنی مرکب نظامِ حکومت قرار دیا گیا تھا۔

تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کی رینکنگ میں تنزلی دیکھنے میں آئی ہے اور اب پاکستان گذشتہ سال کی رینکنگ میں 11 درجوں کی تنزلی کے بعد اقوام عالم میں 118 نمبر پر آ گیا ہے۔

گذشتہ برس ’ڈیموکریسی انڈیکس‘ میں پاکستان کا سکور 13۔4 تھا جو اس برس کم ہو کر 25۔3 ہو گیا ہے۔

اس رپورٹ میں امریکہ، انڈیا، برازیل اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو ’فلاڈ جمہوریت‘ قرار دیا ہے۔ ’فلاڈ جمہوریت‘ سے مراد وہ نظام ہے جہاں انتخابات تو صاف و شفاف ہوتے ہیں لیکن وہاں موجود جمہوری نظام میں مسائل ہوتے ہیں جیسے کہ میڈیا پر دباؤ، نظام میں کمزوریاں اور لوگوں کی سیاسی نظام میں دلچسپی میں کمی۔

اس فہرست میں انڈیا کا رینک 41واں ہے۔

’دی اکانومسٹ‘ نے ناروے، نیوزی لینڈ اور آئس لینڈ کو ’مکمل جمہوری‘ ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر رکھا ہے۔

واضح رہے کہ رپورٹ کی تشکیل میں شہری آزادی، انتخابی نظام اور سیاسی کلچر اور اس میں مختلف سوچ کے لوگوں کی شرکت کی گنجائش جیسے عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے۔

پاکستان کی حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر تاحال اس رپورٹ پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

’اتھاریٹیرین‘ یا آمرانہ طرزِ حکمرانی سے کیا مراد ہے؟

’ڈیموکریسی انڈیکس 2023‘ کے مطابق پاکستان اس برس ایشائی ممالک میں وہ واحد ملک ہے جسے سکور میں تنزلی کے بعد اسے ’ہائبرڈ‘ کی فہرست سے نکال کر ’اتھاریٹیرین‘ یعنی آمرنہ طرز حکومت والے ممالک کی فہرست میں ڈالا گیا ہے۔

’دی اکانومسٹ‘ کے مطابق ایسے ممالک جہاں صاف و شفاف انتخابات نہیں ہوتے، شخصی آزادیوں پر پابندیاں ہوتی ہیں، میڈیا یا تو صرف سرکاری ہوتا ہے یا پھر اشرافیہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ ’آمرانہ‘ نظام کے حامل ملک کہلاتے ہیں۔

اُن کے مطابق ایسے ممالک میں حکومت پر تنقید کے بُرے نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور یہاں عدلیہ بھی آزاد نہیں ہوتی۔

’دی اکانومسٹ‘ کے مطابق ایسے ممالک میں جمہوری ادارے ضرور ہوتے ہیں لیکن اُن کی اہمیت کم ہوتی ہے۔

پاکستان کے نظام کو آمرانہ کیوں قرار دیا گیا ہے؟

’دی اکانومسٹ‘ کی رپورٹ میں پاکستان کے سیاسی نظام پر تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو انتخابات سے قبل دباؤ میں رکھا گیا جس کی وجہ سے ان کی سیاسی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور متعدد رہنما پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں نگراں حکومت نہ ہمیشہ ایسے دعوؤں یا کسی مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف کارروائیوں کی ہمیشہ تردید کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اٹلانٹک کونسل کے نان ریزیڈنٹ فیلو عزیر یونس کہتے ہیں کہ اُن کے لیے پاکستان کو ’اتھاریٹیرین‘ قرار دیا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’ایسا ملک جہاں انتخابات اپنی آئینی مدت سے آگے بڑھائے جائیں، میڈیا کو ایک سیاسی جماعت یا اس کے لیڈر کی کوریج کرنے سے منع کیا جائے، سیاسی کارکنان اور رہنما روپوش ہوں، ایسے ملک کو آمرانہ نظام کا حامل ملک قرار دیا جانا حیرانی کی بات نہیں۔‘

پاکستانی تھنک ٹینک ’تبادلیب‘ کے فاؤنڈنگ پارٹنر اور کالم نویس مشرف زیدی نے ’دی اکانومسٹ‘ کی رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جس رپورٹ میں پاکستان کی تنزلی کی گئی ہے، اُسی رپورٹ میں یونان کی ترقی کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جو دائیں بازو کے نظریات کے مزید قریب ہو گیا ہے اور اس کی پالیسیاں یورپ میں بہتر زندگیوں کی خواہش رکھنے والے پناہ گزینوں کی موت کا سبب بنی ہیں۔‘

تاہم ان کے مطابق پاکستان میں نظام میں موجود کمزوریاں ’مغربی اداروں‘ کو پاکستان پر تنقید کرنے کا موقع دیتی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’سیاست میں مسلسل مداخلت اور عوام کی مرضی کو مجروح کرنے کا سلسلہ ایسا مغربی اداروں کو پاکستان کو ہدفِ تنقید بنانے کے مواقع فراہم کرتے رہیں گے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں