اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کو ضمانت دینے کے معاملے پر ملک کی مختلف مذہبی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں اور فیصلہ سنانے والے ججز پر احمدیوں کی حمایت کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے حال ہی میں ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی نامی ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جن کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے۔
اگرچہ سپریم کورٹ نے مبارک احمد کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ چھ فروری 2024 کو سنایا تھا۔ مگر دو روز قبل سوشل میڈیا پر بعض اکاؤنٹس کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشہیر کی گئی جس کے بعد مذہبی جماعتیں اس معاملے پر ہم آواز ہوگئی ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت تحریک لبیک کے سربراہ علامہ سعد رضوی،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار پاکستان، جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ہشام الہیٰ ظہیر، نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید پراچہ اور تحریکِ تحفظ ناموس رسالت پاکستان کی طرف سے مذمتی بیانات سامنے آچکے ہیں۔
مذکورہ مذہبی تنظیمیں چیف جسٹس سے فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے حوالے سے بات کرنا ہمیشہ سے حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اس بارے میں ماضی میں کئی افراد کو صرف الزام لگنے پر ہی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
معاملہ کیا ہے؟
چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا جس کے مدعی تحفظ ختم نبوت فورم نامی تنظیم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ تھے۔
ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق سات مارچ 2019 کو مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر ‘تفسیرِ صغیر’ 30 بچوں اور 32 بچیوں میں تقسیم کی گئیں۔
مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ “تقریب کا اہتمام کرنے والے اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔”
واضح رہے کہ ‘تفسیرِ صغیر’ احمدی کمیونٹی کی جانب سے مرتب کردہ قرآنی تفسیر ہے جس کی تقسیم کے خلاف دسمبر 2022 میں درج ہونے والے مقدمے کے بعد پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی شخص کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم مقدمے میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔
مبارک احمد کی گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اور بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے چھ فروری 2024 کو فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا کہتا ہے؟
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ملزم کے خلاف دفعہ C-295, 298 اور پنجاب کے اشاعت قرآن ایکٹ کی دفعہ سات اور نو کے تحت 6 دسمبر 2022 کو مقدمہ درج ہوتا ہے جس میں ملزم پر الزام ہے کہ وہ ممنوعہ کتاب ‘تفسیرِ صغیر’ کی تقسیم میں ملوث ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم پر بنیادی طور پر تین الزامات تھے جن میں پہلا الزام یہ تھا کہ پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 کی دفعہ سات اور نو کے تحت ‘تفسیرِ صغیر’ کی تقسیم کی گئی۔
دوسرا الزام یہ تھا کہ دفعہ295 بی کے تحت توہینِ قرآن کی گئی جب کہ تیسرا الزام دفعہ 298 سی کے تحت احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ان الزامات کے تحت چھ دسمبر 2022 کو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد 10 جون اور 27 نومبر 2023 کو ایڈیشنل سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ سے ملزم کی ضمانت خارج کر دی جاتی ہے جس کے بعد اس کیس کی ابتدا سپریم کورٹ میں ہوتی ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے سامنے اس کیس میں دو سوالات تھے جن میں پہلا تو ملزم کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست تھی اور دوسرا معاملہ ملزم پر جو فردِ جرم عائد کی گئی تھی، اس فرد جرم سے مختلف جرائم کو حذف کرنے کی درخواست تھی۔
عدالت کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران ملزم کے وکیل نے پہلا نکتہ یہ اٹھایا کہ ملزم کے خلاف چھ دسمبر 2022 کو جو ایف آئی آر درج کی گئی، اس کے مطابق ملزم پر الزام ہے کہ اس نے 2019 میں ‘تفسیرِ صغیر’ تقسیم کی ہے جو کہ پنجاب کے اشاعتِ قرآن قانون کے تحت جرم ہے لیکن ایسی کوئی تفسیر تقسیم کرنے پر پابندی 2021 میں لگی ہے یعنی اگر 2021 کے بعد اگر کوئی ایسی تفسیر تقسیم کرے گا تو وہ جرم کے زمرے میں آئے گا۔
فیصلے کے مطابق فوجداری مقدمات میں مقدمہ بروقت دائر کرنا اہمیت کا متقاضی ہوتا ہے لیکن اس کیس میں 2019 کے الزام کی بابت ایف آئی آر 2022 کے آخر میں درج کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 12 واضح ہے کہ کسی کو بھی کسی ایسے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی جسے کرتے وقت وہ کام کسی قانون کے تحت جرم کی تعریف میں نہ ہو۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ چوں کہ ‘تفسیرِ صغیر’ 2019 میں تقسیم کرنا جرم نہیں تھا، اس لیے پنجاب اشاعت قرآن قانون کے تحت ملزم کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی تھی۔
سپریم کورٹ نے ملزم کے خلاف دیگر دو الزامات یعنی توہینِ قرآن اور خود کو مسلمان ظاہر کرنا، کے حوالے سے فیصلے میں کہا کہ ملزم کے خلاف نہ تو ایف آئی آر اور نہ ہی پولیس کے چالان میں ان الزامات کے حوالے سے کوئی بات ہے۔ اس وجہ سے عدالت نے دونوں دفعات فردِ جرم سے حذف کرنے کا فیصلہ کیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں قرآن کی سورة البقرة کی آیت نمبر 256، سورة الرعد کی آیت نمبر 40 اور سورة یونس کی آیت نمبر 99 کا حوالہ بھی دیا ہے۔
سورۃ البقرہ کی آیت میں کہا گیا ہے کہ “دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں کی جاسکتی۔”
‘کیس سے وابستہ تمام افراد کا زور یہ ثابت کرنے پر تھا کہ قرآن کی بے حرمتی کی گئی’
سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ دین کے معاملے میں جبر سے آخرت میں محاسبہ کے متعلق خدائی نظام کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ رسول اللہ تک کو خالق نے یہ کہا تھا کہ ان کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کریں گے۔ عقیدے کی آزادی اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ہے لیکن افسوس ہے کہ دینی امور میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور قرآنی فریضہ بھلا دیا جاتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ قرآن کا تقاضا ہے کہ تمام اہم امور سے متعلق غور و فکر کیا جائے اور سوچا جائے لیکن اس کیس سے وابستہ تمام افراد کا زور یہ ثابت کرنے پر تھا کہ قرآن کی بے حرمتی کی گئی اور اللہ کے آخری رسول کی توہین کی گئی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ قرآن کے اس اصول کو، کہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، آئین میں ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ آئین کی دفعہ 20 کی شق اے طے کرتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسے بیان کرنے کا حق ہوگا۔ دفعہ 20 کی شق بی کہتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال اور ان کے انتظام کا حق ہوگا۔
آئین کی دفعہ 22 یہ لازم اور مقرر کرتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ یا فرقے کو کسی ایسے تعلیمی ادارے میں جس کا انتظام کلی طور پر اس گروہ یا فرقے کے پاس ہو، اس گروہ یا فرقے کے طلبہ کو مذہبی تعلیم دینے سے نہیں روکا جائے گا۔ آئین میں درج ان بنیادی حقوق سے انحراف یا گریز نہیں کیا جاسکتا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ریاست کے حکام صرف قرآن پر عمل اور آئین پر غور کرتے تو ان جرائم پر ایف آئی آر درج نہ کرائی جاسکتی تھی۔ اس لیے ان اپیلوں کو منظور کیا جاتا ہے اور ہائی کورٹ کے حکمنامے کو منسوخ کرتے ہوئے فردجرم سے پنجاب طباعت وضبط قانون کی دفعہ 7 اور 9 اور مجموعہ تعزیزات کی دفعات 298 سی اور 295 بی کو حذف کیا جاتا ہے۔
ملزم کا جرم بنتا ہے لیکن وہ دگنی سزا کاٹ چکا: فیصلہ
عدالت نے ملزم کی طرف سے درخواست ضمانت کے متعلق کہا کہ فوجداری ترمیمی قانون 1932 کی دفعہ پانچ کے تحت ملزم پر ‘تفسیر صغیر’ کی تقسیم کرنے کا جرم بنتا ہے جس پر اسے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ لیکن ملزم کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا۔ اس طرح ملزم 13 ماہ سے قید ہے جو زیادہ سے زیادہ سزا سے بھی دگنا عرصہ ہے۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ملزم پر فوجداری ترمیمی قانون 1932 کی دفعہ پانچ کے تحت ملزم پر فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ لہذا اگر یہ جرم ہوا بھی ہے تو اس کی سزا سے زیادہ ملزم سزا کاٹ چکا ہے۔ لہذا ملزم کو پانچ ہزار روپے کے ذاتی مچلکے پر فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
اس کیس میں اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ جرم کا ارتکاب مبینہ طور پر سات مارچ 2019 کو ہوا تھا جب کہ اس کی ایف آئی آر چھ دسمبر 2022 کو درج کی گئی۔ سپریم کورٹ نے فیصلے کے آخر میں لکھا کہ اس طرح کے کیسز کا بنیادی تعلق کسی عام آدمی یا اس کی پراپرٹی کے ساتھ نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ ہے۔
‘عدالتی فیصلے میں سقم ہے’
سپریم کورٹ کے فیصلے پر قانون دان اور سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق کہتے ہیں سپریم کورٹ کے سامنے موجود ملزم پر الزام تھا کہ اس نے تحریف شدہ قرآن کا ترجمہ تقسیم کیا۔ اس بارے میں عدالت نے کہا کہ 2021 میں اس حوالے سے قانون بنا لیکن قرآن طباعت سے متعلق 2011 سے قانون موجود ہے۔
ان کے بقول عدالت کا یہ کہنا غلط ہے کہ قانون 2021 میں بنا کیوں کہ قانون 2011 سے موجود ہے جس میں 2021 میں صرف اس حد تک ترمیم کی گئی تھی کہ سوشل میڈیا یا دیگر الیکٹرانک ذرائع کے ذریعے تحریف شدہ قرآن یا اس کے ترجمے کی ترویج نہیں کی جاسکے گی۔ لہذا جب 2019 میں یہ جرم ہوا تو اس وقت قرآن کے تحریف شدہ ترجمے کی اشاعت اور تقسیم غیر قانونی تھی۔
عدالتی فیصلے پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے قانون دان عمران شفیق نے کہا کہ دفعہ 7 بی کے مطابق قرآن کا ترجمہ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔
عمران شفیق کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک سقم یہ بھی ہے کہ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ دین میں جبر نہیں ہے اور کسی بھی مذہب کو اپنے اعتقادات کی ترویج کی اجازت ہے۔ لیکن اس بارے میں آئین کے آرٹیکل 20 کی تشریح اور ‘امتناع قادیانیت ایکٹ 1984’ کے بارے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔
ان کے بقول سپریم کورٹ امتناع قادیانیت ایکٹ 1984 میں قرار دے چکی ہے کہ قادیانیوں کو اپنی چار دیواری کے اندر عبادت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شعار اسلام کو اپناتے ہوئے اپنے مذہب کی ترویج کرسکیں۔ اس صورتِ حال میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ دو رکنی بینچ پر بائنڈنگ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ان کے بقول اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا بھی فیصلہ ہے کہ احمدیوں کو ایسی چیز کی اجازت نہیں دی جاسکتی جس کے ذریعے وہ خود کو مسلمان ظاہر کر سکیں۔
دوسری جانب بیرسٹر سدرہ قیوم کہتی ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے میں پاسنگ ریمارکس اگرچہ کچھ سخت ہیں لیکن عدالتی فیصلے پر حقیقت سے زیادہ پروپگینڈا کیا جارہا ہے۔
انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ہر طرف کافی کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے کہ چیف جسٹس نے قادیانیوں کو تبلیغ کی کھلی اجازت دے دی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالاں کہ یہ بات اس فیصلے کا سرے سے موضوع ہے ہی نہیں۔
‘سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں’
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک ویڈیو بیان کہا ہے کہ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک قادیانی کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے قادیانیوں کو مذہب کی تبلیغ کی اجازت دی ہے جو کہ مذہب، قانون اور آئین سے متصادم ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے الزام عائد کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مغربی خواہشات کے تابع کیا گیا ہے جس میں قرآن کی جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ اس فیصلے سے مطابقت نہیں رکھتی۔
انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اور ان کی جماعت علما سے اپیل کرتی ہے کہ وہ جمعے کے روز اپنے خطبوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آواز بلند کریں، ختم نبوت کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائیں اور عدالتی فیصلے کی مذمت کریں۔
انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سے درخواست کی کہ وہ تمام مذہبی جماعتوں اور آئینی ماہرین سے رابطہ کر کے لائحہ عمل بنائیں تاکہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم
پاکستان میں احمدی گروہ کے حوالے سے بات کرنا ہمیشہ سے حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اس بارے میں ماضی میں کئی افراد کو صرف الزام لگنے پر ہی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک باقاعدہ مہم موجود ہے جب کہ فیصلے پر بحث کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر جہاں توہین آمیز ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں وہیں کئی ایسی ویڈیوز بھی موجود ہیں جن میں انہیں دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔
ایسی ہی ایک ویڈیو مفتی حنیف قریشی کی بھی ہے جس میں وہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کر رہے ہیں۔ مفتی حنیف قریشی وہی عالمِ دین ہیں جنہوں نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے خلاف آسیہ بی بی کی حمایت پر فتویٰ دیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف سے منسلک ماہر قانون اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں وہ وکلا کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں ان کے ہاتھ میں موجود بینر پر تحریر تھا کہ قاضی فائز عیسٰی حدود اللہ سے تجاوز مت کرو۔ اگر تم توہینِ عدالت برداشت نہیں کر سکتے تو ہم توہینِ رسالت برداشت نہیں کر سکتے۔