نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) بھارت نے ایک ڈیم کی تعمیر کرکے دریائے راوی کا پانی پاکستان کی طرف جانے سے مکمل طور پر روک دیا ہے۔ اس دریا کے پانی پر بھارت کا حق ہے، تاہم تقسیم ملک کے بعد سے اب تک اس کا کچھ پانی پاکستان جاتا رہا تھا۔
بھارتی صوبے پنجاب میں شاہ پور کنڈی بیراج کی تکمیل کے ساتھ ہی دریائے راوی سے پاکستان کی جانب پانی کا بہاؤ مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ یہ پیش رفت پانی کی تقسیم میں اہم تبدیلی کی جانب ایک اشارہ ہے۔
شاہ پور کنڈی ڈیم پنجاب اور جموں و کشمیر کی سرحد پر واقع ہے اور بھارت کا کہنا ہے کہ جو اضافی پانی پاکستان کی جانب بہہ کر جاتا تھا، اس کی بندش سے اب خطہ جموں و کشمیر مستفید ہو سکے گا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے سن 1960 کے سندھ طاس آبی معاہدے کے تحت دریائے راوی کے پانی پر بھارت کا خصوصی حق ہے، البتہ قدرتی طور پر اس دریا کا بچا ہوا پانی پاکستان کی جانب بہہ کر جاتا تھا جس کا آب پاشی کے لیے پاکستان میں بھی استعمال ہوتا تھا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت نے دریائے سندھ اور اس میں گرنے والے پانچ دریاؤں کے پانی کی تقسیم پر اتفاق کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ”انڈس بیسن” کے تین مشرقی دریا، بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کا حق ہے اور مغربی دریاؤں جہلم، چناب اور سندھ کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔ اس کے علاوہ بھارت پاکستان کے حصے میں آنے والے تین مغربی دریاؤں کا 20 فیصد پانی آب پاشی، ٹرانسپورٹ اور بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔
یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان عشروں پر محیط کشیدگی اور تین جنگوں کے باوجود اب بھی قائم ہے۔
شاہ پوری کنڈی بیراج کی تکمیل
شاہ پور کنڈی بیراج بھارتی پنجاب کے ضلع پٹھان کوٹ میں واقع ہے۔ یہ ڈیم جموں و کشمیر اور صوبہ پنجاب کے درمیان گھریلو تنازعے کی وجہ سے کافی دنوں سے رکا پڑا تھا اور اسی وجہ سے پانی کا کافی حصہ جو ہندوستان کا ہے، ان تمام سالوں میں پاکستان جا رہا ہے۔
بھارتی ریاست پنجاب اور جموں و کشمیر کی حکومتوں نے پاکستان کو جانے والے پانی کو روکنے کے لیے سن 1979 میں رنجیت ساگر ڈیم اور ڈاون اسٹریم شاہ پور کنڈی بیراج بنانے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
رنجیت ساگر ڈیم کی تعمیر سن 2001 میں مکمل ہو گئی تھی، البتہ شاہ پور کنڈی بیراج مکمل نہیں ہو سکا اور دریائے راوی سے پانی پاکستان میں جاتا رہا۔ پھر سن 2008 میں شاہ پور کنڈی منصوبے کو قومی منصوبہ قرار دیا گیا۔ لیکن سن 2014 میں پنجاب اور جموں و کشمیر کے درمیان تنازعات کی وجہ سے یہ منصوبہ دوبارہ تعطل کا شکار ہو گیا۔
آخر کار سن 2018 میں مودی حکومت نے ثالثی کی اور دونوں ریاستوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا یا اور اب اس کی تعمیر کا کام تقریبا مکمل ہو گیا ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ جو پانی اب تک پاکستان جا رہا تھا اب جموں و کشمیر کے دو اہم اضلاع کٹھوعہ اور سانبا کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔