اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں طالبان حکام نے مبینہ طور پر خواتین صحافیوں اور خواتین کو انتباہ کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر میڈیا پلیٹ فارمز پر جانے سے اجتناب کریں اور اس وقت تک میڈیا پر نہ آئیں جب تک انہوں نے ضابطے کے مطابق لباس نہ پہنا ہوا ہو جس میں صرف ان کی آنکھیں ہی دکھائی دیں۔
افغانستان جرنلسٹس سینٹر، یا اے ایف جے سی نے، جو کہ اس ملک میں صحافتی آزادی کی ایک تنظیم ہے، کہا ہے کہ یہ انتباہ منگل کو طالبان کی نیکی کے فروغ اور برائی کو روکنے یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی وزارت کے سربراہ محمد خالق حنفی نے کابل میں صحافیوں سے ایک ملاقات کے دوران جاری کیا۔
اے ایف جے سی نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں، وزارت کے ترجمان عبدالغفار فاروق کے حوالے سے میٹنگ میں سفارش کی کہ وہ باحیا لباس کے ضابطے کی پابندی کریں، جس میں خواتین کی تصویروں کو سیاہ لباس اور نقاب میں دکھایا جائے، جن کے چہروں کا زیادہ تر حصہ ڈھکا ہوا ہو، ان کی صرف آنکھیں دکھائی دیں۔
تنظیم نے کہا ہے کہ فاروق نے یہ بھی مشورہ دیا کہ ٹیلی ویژن نیوز چینلز ایسی خواتین کے انٹرویو کرنے سے گریز کریں جو حجاب کی پابندی نہیں کرتیں یا اپنے چہرے کو مکمل طور پر نہیں ڈھانپتیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حنفی نے انتباہ کیا کہ ان ہدایات پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے میڈیا میں خواتین کے کام کرنے پر ممانعت کی جا سکتی ہے۔
وزارت کے حکام نے ابھی تک رپورٹ کیے جانے والے اجلاس یا اس کی تفصیلات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
میڈیا کے نگران گروپ نے کہا ہے کہ وہ افغان میڈیا کی حالت اور خواتین پر میڈیا میں کام کرنے پر پابندی کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سخت فکر مند ہے، جنہیں پہلے ہی اپنے کام کے حوالے سے بڑے پیمانے پر پابندیوں کا سامنا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ حنفی کی وارننگ بالآخر افغانستان میں میڈیا سے خواتین کو ختم کرنے پر منتج ہو سکتی ہے، جہاں طالبان نے زیادہ تر خواتین کی تعلیم اور کام کرنے یا عوامی زندگی تک رسائی پر پہلے ہی بڑے پیمانے کی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
اے ایف جے سی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مقامی میڈیا کے پروفیشنلز کو کام کے ان سخت حالات کا سامنا کرنا ہے جو ان میڈیا گائیڈ لائنز پر سختی سے عمل درآمد کا تقاضا کرتی ہیں جنہیں طالبان نے 2021 میں اقتدار پر دوبارہ قبضے کے بعد متعارف کرایا تھا۔
افغان جرنلسٹ سینٹر نے کہا ہے کہ موجودہ ہدایات میں سے کچھ خواتین کو قومی ریڈیو اور ٹیلی ویژن اسٹیشنوں میں کام کرنے سے روکتی ہیں، کام کی جگہوں پر صنف کی بنیاد پر علیحدگی کی ضرورت کا نفاذ کرتی ہیں، اور بعض صوبوں میں خواتین کی آوازوں اور فون کالز کو نشر کرنے پر پابندی لگاتی ہیں۔
طالبان کے قبضے کے بعد اے ایف جے سی نے اپنا دفتر افغانستان سے باہر منتقل کر دیا تھا لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کے کارکن اب بھی افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں کے مقامی میڈیا اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں۔
طالبان نے ٹیلی ویژن کے ان ڈراموں پر پابندی عائد کر دی ہے جن میں خواتین اداکارائیں شامل ہوں اور ٹیلی وژن پر خبریں پڑھنے والی خواتین کے لیے اسلامی حجاب پہننا لازمی کر دیا گیا ہے۔
‘جنسی امتیاز’
طالبان نے نوعمر لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔ خواتین امدادی کارکنوں پر صحت کے شعبے کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت انسانی امداد سے متعلق غیر سرکاری تنظمیوں کے لیے کام کرنے پر پابندی ہے، اور اس کے علاوہ خواتین کو عوامی پارکوں، جم خانوں وغیرہ میں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے افغانستان میں انسانی صورت حال سے متعلق خصوصی نمائندے رچرڈ بینٹ نے جمعرات کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی صورت حال بہت زیادہ خراب ہوئی ہے اور ناقابل قبول مصائب کا باعث بنی ہے۔
انہوں نے طالبان اور بیرونی دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ افغانوں کو اس پستی سے نکالنے اور امید دلانے کے لیے اقدامات کریں۔
انہوں نے طالبان کی طرف سے قتل اور زنا سمیت جرائم کے مرتکب افغانوں بشمول خواتین کو سرعام پھانسی دینے اور کوڑے مارنے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں لڑکیوں کی تعلیم اور امدادی اداروں میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی پر تشویش ہے۔
جمعرات کو اس رپورٹ کے جاری ہونے سے چند گھنٹے پہلے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ بینٹ اور دیگر مغربی ناقدین کو چاہیے کہ وہ افغان انسانی حقوق کے معاملے کا غلط استعمال بند کریں اور اس کی بجائے دنیا میں دوسری جگہوں پر حقوق کی پامالیوں پر توجہ دیں۔
طالبان اپنی حکومت پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان کے اقدامات اسلامی قانون اور افغان ثقافت کے مطابق ہیں۔