پشاور (ڈیلی اردو/وی اواے) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز، محکمۂ صحت کے افراد اور رضاکاروں پر حملوں کے باوجود انسدادِ پولیو مہم جاری ہے۔
صوبائی محکمۂ صحت کے مطابق صوبے بھر میں پیر کو شروع ہونے والی انسداد پولیو مہم جمعے تک جاری رہے گی۔
خیبر پختونخوا میں محکمۂ صحت کے خصوصی سیکریٹری عبدالباسط نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ جب بھی انسدادِ پولیو مہم میں شریک محکمۂ صحت اور پولیس یا دیگر سیکیورٹی اہل کاروں پر حملے ہوتے ہیں اس علاقے میں چند گھنٹوں کے لیے مہم معطل کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مہم کے دوران لکی مروت، باڑہ خیبر اور مردان میں پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملے کیے گئے ہیں تاہم تینوں علاقوں میں یہ پولیو ویکسین پلانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تازہ ترین واقعے میں منگل کی صبح نامعلوم افراد نے مرادن کے ایک دیہی علاقے میں انسداد پولیو مہم میں شامل اہلکاروں پر فائرنگ کرکے ایک پولیس اہلکار کو زخمی کر دیا۔
پولیس حکام کے مطابق رواں مہم سے ایک روز قبل جنوبی ضلع لکی مروت میں ایک اہلکار کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ اس واقع کی تحقیقات جاری ھیں۔
اس سے قبل پیر کو پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے علاقے قمبر غربی میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے ایک پولیو ورکر اور ایک پولیس اہلکار کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ دونوں زخمی پشاور کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
انسدادِ پولیو مہم کے ہنگامی دفتر سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق رواں سال 2024 میں انسداد پولیو مہم میں شامل سیکیورٹی، محکمۂ صحت کے اہلکاروں اور رضاکاروں پر مبینہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔
رواں سال پولیو مہم پر اب تک ہونے والے حملوں میں آٹھ افراد ہلاک اور 36 زخمی ہوئے ہیں جبکہ پچھلے سال 2023 میں مجموعی طور پر 7 افراد ہلاک اور 13 زخمی ہوئے تھے۔
خیبرپختونخوا پولیس کے حکام بارہا کوششوں کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا۔ نو منتخب وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے ضلع خیبر میں پولیو ٹیم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کی شدیدالفاظ میں مذمت کی اور فوری کارروائی کی ہدایات جاری کی ہیں۔
وزیرِاعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ پولیو ٹیموں کی سیکیورٹی کو مزید بہتر بنایا جائے۔ فرنٹ لائن پر کام کرنے والے پولیو ورکرز ہمارے ہیرو ہیں ان کی حفاظت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پولیو ٹیموں پر حملہ کرنے والے ہمارے بچوں کے محفوظ مستقبل کے دشمن ہیں، حکومت انہیں اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
ابھی تک کسی فرد یا گروپ نے انسدادِ پولیو مہم پر ہونے والے حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے تاہم پولیس حکام اور تجزیہ کار شبہہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سمیت عسکریت پسندوں کی کاروائیاں ہیں۔
کالعدم شدت پسند تنظیم کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ انسداد پولیو مہم میں شامل سیکیورٹی اہلکاروں اور رضاکاروں پر ہونے والے حملوں سے انک ا کوئی تعلق نہیں ہے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی رسول داوڑ کا کہنا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نئی حکمت عملی کے تحت پچھلے دو مہینوں سے دہشت گردی اور گھات لگا کر قتل کے وارداتوں کی ذمہ داریاں قبول نہیں کر رہی ہے۔
پشاور کے سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان پر نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک کا بہت دباؤ ہے۔ افغانستان میں روپوش کالعدم ٹی ٹی پی بھ اسی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے اور اسی لیے اس کے تمام گروپس اس قسم کے واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان دنیا کے دو ایسے ممالک ہیں جہاں ابھی تک پولیو وائرس کا پھیلاؤ جاری ہے۔
انسداد پولیو مہم کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رواں سال ابھی پولیو سے متاثرہ کسی بھی متاثرہ فرد کی نشان دہی نہیں ہوئی ہے مگر پچھلے سال چھ متاثرہ مریضوں میں چار کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔
ترجمان کے مطابق یکم مارچ سے جاری اس مہم کے دوران صوبے میں پانچ سال تک کی عمر کے 77 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
انسدادِ پولیو کے اس مہم کا پہلا مرحلہ 26 فروری کو ضلع لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہو چکا ہے جس میں تقریبا چھ لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جارہے ہیں۔
اس مہم کا دوسرا مرحلہ تین مارچ سے شروع ہوا ہے جس میں تقریباً 71 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔
انسداد پولیو کی اس مہم کے دوران بچوں کو ان کی قوت مدافعت بڑھانے کیلئے وٹامن اے کی خوراک بھی دی جائے گی۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ ا نسدادِ پولیو کی اس مہم کے لیے تربیت یافتہ پولیو ورکرز کی 31,851 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں جن میں 28,414 موبائل ٹیمیں، 1,937 فکسڈ ٹیمیں 1,328 ٹرانزٹ ٹیمیں اور 172 رومنگ ٹیمیں شامل ہیں۔ اس پولیو مہم کے دوران تقریباً 48,000 پولیس اہلکار بھی تعینات کئے گئے ہیں۔