اسٹاک ہوم (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے تازہ ترین مطالعے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ فرانس نے اسلحہ کی تجارت میں روس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ امریکہ اس فہرست میں بدستور پہلے نمبر پر ہے اور اس نے اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط بنایا ہے۔
Russian???????? arms exports fell by 53% between 2014–18 and 2019–23. For the first time, Russia was the third biggest arms exporter, just behind France.
Get the full analysis ➡️ https://t.co/GxdBx9EWqb pic.twitter.com/XtxIZNmeEs
— SIPRI (@SIPRIorg) March 11, 2024
سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں قائم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی تازہ ترین تحقیقی رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ فرانس اسلحہ کی تجارت میں روس کو پیچھے چھوڑ کر اس فہرست میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے اور امریکہ نے عالمی سطح پر ہتھیاروں کی فروخت میں اپنی پوزیشن کو مضبوط تر کر لیا ہے۔
Who were the five largest arms exporters in 2019–23?
1) United States ????????
2) France ????????
3) Russia ????????
4) China ????????
5)Germany ????????Together, they supplied 75% of the world’s arms exports in 2019–23.
Read more ➡️ https://t.co/vPfyISQpt4 pic.twitter.com/1OrDbRH0Wb
— SIPRI (@SIPRIorg) March 11, 2024
انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2022ء میں روس کے یوکرین پر حملے اور تب سے جاری جنگ نے یورپ میں ڈرامائی انداز میں نئےہتھیاروں کی خریداری کے رجحان کو آگے بڑھایا ہے، جس کا بنیادی فائدہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہوا ہے۔
دو ہزار چودہ تا دو ہزار اٹھارہ کے درمیانی عرصے کے مقابلے میں 2019ء سے 2023ء تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مجموعی طور پر ہتھیاروں کی تجارت میں 3.3 فیصد کمی آئی، لیکن اس عرصے میں یورپی ممالک کی طرف سے اسلحے کی درآمد پچھلے پانچ سالوں کے مقابلے میں دگنی ہو گئی۔
یورپی ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت کا بڑا حصہ یعنی 55 فیصد امریکہ سے آتا ہے، جو گزشتہ مدت کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے۔
امریکہ اسلحے کا سب سے بڑا تاجر
امریکہ نے اپنے ہتھیاروں کی مجموعی برآمدات میں 17 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ امریکی ہتھیاروں کی یورپی ممالک کو فروخت سے ممکن ہوا۔ امریکی ہتھیار سازوں نے 107 ممالک کو اسلحہ فروخت کیا جو کہ SIPRI کی جانب سے اب تک کروائے گئے مطالعے میں ہتھیاروں کی سب سے بڑی تجارت ہے۔
SIPRI آرمز ٹرانسفر پروگرام کے ڈائریکٹر میتھیو جارج کے بقول،”امریکہ نے ہتھیاروں کے فراہم کنندہ ملک کے طور پر اپنے عالمی کردار میں مزید اضافہ کر لیا ہے، جو اس کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم پہلو ہے۔ یعنی زیادہ ممالک کو اتنے زیادہ ہتھیار فراہم کرنا جتنے اُس نے اس سے پہلے کبھی نہیں کیے۔‘‘
میتھیو جارج نے مزید کہا، ”یہ حقیقت ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب ابھرتی ہوئی طاقتوں کی طرف سے امریکہ کے اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی غلبے کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔‘‘
یہ کوئی حیرت انگیز امر نہیں کہ یورپی ملک یوکرین میں ہتھیاروں کی درآمدات میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ 2019ء سے 2023ء تک، یوکرین بھارت، سعودی عرب اور قطر کے بعد دنیا بھر میں ہتھیاروں کا چوتھا بڑا خریدار ملک بن گیا۔ اس اثناء میں ہتھیاروں کی درآمدات میں 6,600 فیصد اضافہ ہوا۔
ہتھیاروں کی روسی برآمدات میں کمی
دنیا بھر میں اسلحہ برآمد کرنے والے پانچ بڑے ممالک امریکہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی تھے۔ فرانس روس کو پیچھے چھوڑ کر اب اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔
روس کی برآمدات میں 53 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ فرانسیسی فروخت میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2019 ء تک 31 ممالک روس سے ہتھیار حاصل کر رہے تھے تاہم 2023ء تک، ان کی تعداد کم ہو کر 12 رہ گئی ہے۔ ان میں بھارت اور چین شامل ہیں، جنہوں نے روس کے ساتھ تیل اور گیس کی تجارت کو جاری رکھا ہوا ہے اور روسی ساز و سامان کے اب تک کے سب سے اہم خریدار ہیں۔
جرمن آبدوزوں کی برآمدات
2014ء سے 2023ء تک جرمنی کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جرمنی اب بھی اسلحہ برآمد کرنے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے۔ جرمن اسلحے کے سب سے بڑے خریدار مشرق وسطیٰ کے ممالک ہیں۔
2014 ء سے 2023ء تک کے عرصے کے دوران جرمنی سے اسلحے کی برآمدات میں 14 فیصد کمی واقع ہوئی، تاہم (SIPRI) کی اس رپورٹ کے ایک شریک مصنف پیٹر ویزیمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کمی کو ایک خاص تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ پچھلے پانچ سال کے عرصے میں جرمنی کو بہت بڑے بڑے آرڈرز ملے۔ خاص طور پر جرمن آبدوزوں کی وجہ سے جرمن ہتھیاروں کی تجارت غیر معمولی رہی۔ اس کے برعکس، سال 2023 ء اپنے طور پر جرمن ہتھیاروں کی صنعت کے لیے خاصا اچھا رہا۔ ویزیمن نے کہا کہ اس کا تعلق ”جزوی طور پر، یقیناً، یوکرین کو جانے والی فوجی امداد سے تھا، لیکن ساتھ ہی اس کا تعلق، سنگاپور کو آبدوزوں اور اسرائیل اور مصر دونوں کو فریگیٹس اور کارویٹس کی ترسیل سے بھی ہے۔‘‘