عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ میرٹ پر کرنا چاہتے تھے، سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی

کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی آرمی چیف کے لیے کوئی ترجیح نہیں تھی۔ وہ فیصلہ میرٹ پر کرنا چاہتے تھے۔

صدارت سے سبک دوش ہونے کے بعد اسلام آباد سے کراچی پہنچنے پر اتوار کو پہلی بار میڈیا سے گفتگو میں ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ عدالت نے ان کے کسی اقدام پر آرٹیکل چھ لگانے کی بات نہیں کی ہے۔ اگر پھر بھی کوئی اس کے تحت مقدمہ چلانا چاہے اس کے لیے وہ تیار ہیں۔

واضح رہے کہ عارف علوی 2018 میں تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد صدر بنے تھے۔ وہ صدارت سنبھالنے سے قبل پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل تھے۔

اپریل 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے خاتمے کے بعد بھی عارف علوی ایوانِ صدر میں رہے۔

عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے سے قبل اور بعد میں انہوں نے کئی مواقع پر عمران خان اور اسٹیلشمنٹ کے درمیان رابطوں اور ثالثی کی کوشش بھی کی۔

اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ بعض ملاقاتوں کی معلومات پبلک ہوئی اور بعض کی نہیں۔ ہر ملاقات میں معاملے کو جوڑنے کی کوشش کی اور ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ لیکن کامیابی حاصل نہیں ہو سکے۔

ان ملاقاتوں سے متعلق ایک صحافی نے پوچھا کہ رابطے نتیجہ خیز نہ ہونے کی وجہ کس فریق کی ہٹ دھرمی تھی؟

اس پر عارف علوی نے کہا کہ ’’آپ کیوں چاہتے ہیں کہ میں کسی ایک ہٹ دھرمی کا ذکر کروں۔‘‘

عارف علوی کی صدارت کی مدت ستمبر 2023 میں مکمل ہو گئی تھی۔ لیکن ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں قائم نہیں تھیں جو صدر کے الیکشن کا الیکٹورل کالج ہے۔ اس لیے فروری 2024 میں عام انتخابات کے نتیجے میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے قیام کے بعد صدارتی انتخابات ہوئے ہیں۔

حالیہ صدارتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی مدِ مقابل تھے۔

آصف زرداری کو حکومتی اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی جب کہ محمود خان اچکزئی کو تحریکِ انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحادی کونسل کے ارکان نے ووٹ دیے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق آصف علی زرداری نے 411 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مدِ مقابل صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی 181 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔آصف علی زرداری نے اتوار کو صدارت کا حلف اٹھا لیا ہے۔

آرمی چیف کیلئے ترجیح؟

سبکدوش ہونے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں عارف علوی سے ان کے مدتِ صدارت کے دوران پیش آنے والے کئی اہم امور سے متعلق سوالات کیے گئے۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا عمران خان اس وقت کے کور کمانڈر پشاور اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو فوج کا سربراہ بنانا چاہتے تھے اور کیا اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے اختلافات پیدا ہوئے؟

اس کے جواب میں عارف علوی کا کہنا تھا کہ ’’حلفیہ یہ بات کہتا ہوں کہ آرمی چیف کے لیے عمران خان کسی کو ترجیح نہیں دے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے ہمیشہ کہا کہ میرٹ ہی ہماری اولین ترجیح ہوگی۔‘‘

سائفر کے معاملے پر سابق صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی وہ سائفر دیکھا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم اور وزرا کے حلف میں یہ بات شامل ہے کہ اگر کوئی بات عوامی مفاد کے تحت انہیں بتانا ضروری ہو تو وہ ایسا کر سکتے ہیں اور اس کا فیصلہ وہ خود کریں گے کہ کیا بات لوگوں تک پہنچنی چاہیے۔

واضح رہے کہ عمران خان نے اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد الزام عائد کیا تھا کہ امریکی محکمۂ خارجہ کے اہل کار ڈونلڈ لو نے پاکستان کے سفیر کو ان کی حکومت ختم کرنے سے متعلق متنبہ کیا تھا۔ اس ملاقات کے بعد پاکستانی سفیر نے ایک سائفر کے ذریعے وزارتِ خارجہ کو آگاہ کیا تھا۔

عمران خان نے ایک عوامی جلسے میں ایک خط لہرا کر اس سائفر کے مندرجات کے بارے میں بتایا تھا۔ اس معاملے پر بعد ازاں ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا جس کی میں انہیں 10 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

امریکی محکمۂ خارجہ متعدد بار عمران خان کے الزامات کی تردید کرچکا ہے۔

’آرٹیکل چھ کے لیے تیار ہوں‘

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی بھیجی گئی سمری پر 2022 میں اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق عدالتی فیصلے میں ان کے خلاف آرٹیکل چھ لگانے کی بات نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر کوئی آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانا چاہے تو اس کے لیے تیار ہوں۔ میں نے آئین کی پاس داری کی اور جو درست سمجھا وہ کیا اور جو درست مشورہ ملا اس پر عمل کیا۔‘‘

اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے سے روکنے کے لیے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے اس تحریک کو خلافِ آئین قرار دینے کی رولنگ دے دی تھی۔

اس کے بعد عمران خان نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر عارف علوی کو بھجوائی تھی جسے انہوں نے منظور کرلیا تھا۔

بعد ازاں اسی دن سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو خلاف آئین قرار دے دیا تھا۔

سابق صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انہوں نے عمران خان کو اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے اور صوبائی اسمبلیاں نہ توڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن بعد میں ان فیصلوں کو عوامی تائید حاصل ہوئی اور ثابت ہوا کہ میرا مشورہ غلط تھا۔

’کشیدگی ختم ہونی چاہیے‘

عارف علوی کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے بحال ہوئے ہیں یا نہیں البتہ کشیدگی ختم ہونی چاہیے۔

انہوں نے پاکستان کی فوج میری فوج ہے۔ اس کی سیاسی جماعت ہماری جماعتیں اور یہ ملک کی وفادار ہیں جس طرح کرونا وبا کے دوران فوج اور سویلین قیادت نے مل کر کام کیا تھا اور پاکستان نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ملکی ترقی کے لیے اب بھی وہی نسخہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ نو مئی کو جو توڑ پھوڑ ہوئی اس کی مذمت کی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جنہوں نے قانون شکنی کی ہے انہیں سزا ملنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کل بھی ان کے لیڈر تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ پہلے بھی ان کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی اور اب بھی اٹھائیں گے۔

عارف علوی نے کہا کہ عمران خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے صدارت کے منصب کے لیے میرا انتخاب کیا۔ جلد ہی جیل میں ان سے ملاقات کے لیے درخواست دوں گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں