برسلز (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) یورپی میڈیا فریڈم ایکٹ کا مقصد یورپی یونین کے تمام رکن ممالک میں خبر رساں اداروں کی ادارتی آزادی کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ آزادی صحافت کے حامیوں نے اس نئے قانون کا خیر مقدم کیا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ نے 13 مارچ بدھ کے روز صحافیوں کو سیاسی مداخلت سے بچانے کے لیے ایک نیا قانون منظور کیا، جس کا حقیقی مقصد پریس کی آزادی کو لاحق خطرات سے نمٹانا ہے۔
‘یوروپین میڈیا فریڈم ایکٹ‘ کہلانے والا یہ قانون پوری یورپی یونین میں ادارتی آزادی اور صحافت کے ذرائع کے تحفظ کے لیے وضع کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کی پارلیمان کی رکن زابینے فیرہائین نے پارلیمنٹ میں اس قانون کی منظوری کی سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کی قیادت کی۔ انہوں نے مالٹا کی تحقیقاتی صحافی ڈافنے کاروآنا گالیزیا کے قتل اور ہنگری میں آزادی صحافت کو درپیش خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی کہ آخر اس نئے قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
انہوں نے کہا، ”ایک فعال جمہوریت کے لیے میڈیا کی تکثریت کی اہمیت پر اس سے زیادہ زور نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
میڈیا فریڈم ایکٹ میں ہے کیا؟
نیا قانون حکام کو حراست، نگرانی اور دفتروں پر چھاپوں سمیت جیسی کارووائیوں کے مدد سے، صحافیوں اور مدیروں کو اپنے ذرائع ظاہر کرنے پر مجبور کرنے سے منع کرتا ہے۔
اس قانون کے حوالے سے مذاکرات کے دوران فرانس نے البتہ ”قومی سلامتی‘‘ کے استثنیٰ پر زور دیا تھا۔ تاہم حتمی قانون میں قومی سلامتی کا حوالہ شامل نہیں کیا گيا۔ البتہ حکام کو اس صورت میں صحافیوں کے خلاف ‘اسپائی ویئر‘ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے کہ جب ان پر متعدد سنگین خلاف ورزیوں کا شبہ ہو۔ تاہم ایسا کرنے کی اجازت بھی صرف عدالتی منظوری کے بعد ہی ہو گی۔
میڈیا فریڈم ایکٹ میں شفافیت پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس میں یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ پبلک میڈیا اداروں کے بورڈ کے ارکان کا انتخاب کھلے اور منصفانہ عمل کے ذریعے کیا جانا چاہیے اور انہیں قبل از وقت ان کے عہدوں سے اس وقت تک ہٹایا بھی نہیں جا سکتا کہ جب تک وہ پیشہ وارانہ معیارات کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ پائے جائیں۔
اس کے ساتھ ہی یورپی یونین کے تمام رکن ممالک میں موجود خبر رساں اور میڈيا اداروں کو اپنے مالکان کے بارے میں بھی تمام معلومات ظاہر کرنا ہوں گی تاکہ عوام آسانی سے جان سکیں کہ کون لوگ کس میڈیا ادارے یا داروں کو کنٹرول کرتے ہیں اور کون سے مفادات ایسے ہیں جو ان اداروں کی رپورٹنگ کو متاثر کر سکتے ہیں۔
یہ قانون اب میٹا اور ایکس جیسے سوشل میڈیا اداروں کو اس بات پر بھی مجبور کرے گا کہ وہ میڈیا اداروں کو اس بات کے لیے مطلع کریں کہ وہ کب ان کے کسی خاص مواد کو حذف یا محدود کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہیں اس پر جواب دینے کے لیے ایسے اداروں کو 24 گھنٹے کا وقت بھی دینا ہو گا۔
میڈیا آؤٹ لیٹس کسی بھی کیس کو عدالت کے باہر یا اس کی ماتحتی میں ثالثی کے حق دار بھی ہوں گے۔
آزادی صحافت کے حامیوں کی طرف سے تعریف
یورپی یونین کی کمشنر برائے اقدار اور شفافیت ویرا ژُورووا نے بدھ کے روز اس قانون پر ہونے والی ”تاریخی ووٹنگ‘‘ کی تعریف کی۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا، ”جمہوریتوں کے لیے آزاد میڈیا ضروری ہے۔ یہ جمہوری اقدار والوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی حفاظت کریں۔‘‘
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِآؤٹ بارڈرز نے بھی اس نئے قانون کا خیر مقدم کیا ہے۔ برسلز میں اس تنظیم کے دفتر کی سربراہ ژُولی مائرچاک کا کہنا تھا، ”یورپی یونین میں اس قانون سازی کا مطلب معلومات کے حق کی جانب ایک بڑی اور اہم پیش رفت ہے۔‘‘
مائرچاک نے کہا کہ اب یورپی یونین کے رکن ممالک کو اس بہت اہم قانون کے نفاذ اور اس پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔