افغانستان میں کارروائی کا نشانہ حافظ گل بہادر گروپ اور تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگرد تھے،دفتر خارجہ پاکستان

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پیر کی صبح سرحد کے قریب افغانستان کی حدود میں دہشتگردوں کے خلاف انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر کارروائی کی۔

دفتر خارجہ کے مطابق آج کے آپریشن میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے جو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پاکستان میں متعدد حملے کرنے میں ملوث ہیں، جن میں سیکڑوں عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار مارے گئے۔

دفتر خارجہ کے مطابق تازہ ترین حملہ 16 مارچ کو شمالی وزیرستان میں میر علی کی سکیورٹی چیک پوسٹ پر کیا گیا، جس میں سات پاکستانی فوجی مارے گئے۔

واضح رہے کہ آج صبح افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی ہے جس میں خواتین اور بچوں سمیت آٹھ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

پیر کی صبح افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کے فضائی حملے میں پانچ خواتین اور تین بچے ہلاک ہوئے ہیں۔

انھوں نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ’سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔‘

دوسری جانب افغانستان کی وزارتِ دفاع نے ایک علیحدہ بیان میں یہ کہا کہ ’اس جارحیت کے جواب میں‘ افغانستان کی سرحدی فورسز نے سرحد پار پاکستانی فوج کے مراکز کو نشانہ بنایا۔

پاکستان کے قبائلی ضلع کُرم میں پولیس ذرائع نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ افغان فورسز کی گولہ باری میں پاکستانی فوج کے تین اہلکاروں سمیت سات افراد زخمی ہوئے ہیں۔

’افغان حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کا ساتھ دینے والی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے‘

پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ پاکستان دو برس سے افغانستان میں دہشتگر تنظیم ٹی ٹی پی کی موجودگی سے متعلق مسلسل افغانستان کی عبوری حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتا رہا ہے۔

دفتر خارجہ کے مطابق یہ دہشتگرد پاکستان کی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور یہ تسلسل سے پاکستان میں اپنی دہشتگرد کارروائیوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان افغانستان کی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ مذاکرات اور تعاون کو ترجیح دیتا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق ہم نے بار بار افغان حکام سے یہ مطالبہ کیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو اور وہاں دہشتگرد اپنے پیر نہ جما سکیں۔

’ہم نے ان سے (افغان حکام) سے یہ بھی کہا کہ اپنی سرزمین سے ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کریں اور اس تنظیم کی قیادت کو پاکستان کے حوالے کریں۔ پاکستان افغان عوام کی بہت عزت کرتا ہے تاہم اس وقت افغانستان کی عبوری حکومت میں کچھ عناصر ایسے شامل ہیں جو ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور اسے پاکستان کے خلاف آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ’ہم اقتدار میں موجود ایسے عناصر کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کا ساتھ دینے والی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں، جن کے ہاتھ معصوم پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور واضح طور پر پاکستان کے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کریں۔‘

پاکستان نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے دہشتگرد گروہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں۔

دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے کسی مشترکہ حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہے اور یہ کسی بھی ایسی دہشتگرد تنظیی کو روکنے کی حمایت کرے گا جو افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں خرابی کا ذریعہ بنے۔

کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ دونوں ممالک کی فوجوں میں جھڑپیں ہوتی رہیں ہیں جس میں فریقین کا جانی و مالی نقصان ہوتا رہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور ’خُراسان ڈائری‘ سے منسلک افتخار فردوس نے بی بی سی کے رحان احمد کو بتایا پاکستان کی جانب سے دو سال قبل بھی ان ہی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی کیونکہ دونوں ممالک کی معاشی صورتحال کسی بھی جنگ کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔

’سرحد پر شاید جھڑپیں چلتی رہیں گی اور پھر فریقین کوئی سفارتی راستہ اختیار کریں گے اور کشیدگی کم ہو جائے گی۔‘

پاکستانی فوج کے سابق افسر بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کی افغانستان میں کارروائی کو ’ضروری‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان متعدد بار افغانستان میں طالبان سے درخواست کر چکا ہے کہ جو انھوں نے دوحہ میں امریکہ سے وعدے کیے تھے کہ وہ اپنی سرزمین دہشتگردوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے وہ نبھائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کارروائی نہیں کر رہے اور پاکستان میں دہشتگردی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی طرف سے سرجیکل سٹرائیک کرنا بہت ضروری تھی۔‘

ان کے مطابق افغانستان کو پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنا ہو گا اور ان کی پناہ گاہیں تباہ کرنا ہوں گی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہوسکے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی حکومت اب بھی طالبان کی حکومت سے رابطے میں ہے تاکہ بیٹھ کر بات ہو سکے اور مسئلے کا دیرپا حل نکل سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں