ماسکو (ڈیلی اردو/بی بی سی/اے ایف پی/رائٹرز) روس کی سکیورٹی سروسز کے مطابق دارالحکومت ماسکو کے ایک کانسرٹ ہال میں حملے سے کم از کم 150 افراد ہلاک جبکہ 100 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔
روسی خبر رساں ادارے ایف ایس بی سکیورٹی سروس کے سربراہ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو بتایا ہے کہ ماسکو کنسرٹ ہال پر حملے میں ملوث چار افراد سمیت 11 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
روسی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ چار مشتبہ مسلح افراد کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ یوکرین بارڈر کی طرف جانے کی کوشش کر رہے تھے اور اُن کے یوکرین میں روابط تھے۔ حکام کے مطابق ان افراد کو حراست میں لے کر ماسکو منتقل کر دیا گیا ہے۔
روس نے حملے میں یوکرین کے ملوث ہونے سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔ تاہم یوکرین پہلے ہی اس حملے سے لا تعلقی کا اظہار کر چکا ہے۔
روس کی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق ’مرنے والوں کی لاشوں کی جانچ کی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
روس کے وزیر صحت میخائل مراشکوو نے کہا ہے کہ 143 افراد ہسپتال میں زیر علاج ہیں جن میں سے پانچ بچے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ متاثرین میں سے 60 کی حالت تشویشناک ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو، جس کی تصدیق بی بی سی نے کی ہے، میں دیکھا گیا ہے کہ چار افراد نے کروکس سٹی ہال میں فائرنگ کی۔
روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق کانسرٹ ہال، جہاں لوگ ایک راک بینڈ کی پرفارمنس دیکھنے کے لیے جمع تھے، کی چھت آگ کی لپیٹ میں ہے اور منہدم ہو رہی ہے۔
روسی وزارت خارجہ نے اس واقعے کو ’دہشت گردانہ حملہ‘ قرار دیا ہے۔
جائے وقوعہ سے آنے والی تصاویر میں آگ کے شعلے اور دھوئیں کے بادل آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق کانسرٹ ہال کے ایک تہائی حصے میں آگ لگی ہے اور چھت تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق کچھ لوگ ابھی بھی اندر موجود ہیں۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروا نے عالمی برادری سے اس واقعے کی مذمت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے ’ایک بھیانک جرم‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے تمام کوشیشں کی جا رہی ہیں۔
ماسکو کے میئر سرگئی سوبیانین نے کہا ہے کہ ’انھیں متاثرین کے پیاروں کے لیے افسوس ہے۔‘
روسی میڈیا کے مطابق اس کانسرٹ کے لیے چھ ہزار 200 ٹکٹس فروخت کیے گئے تھے جہاں ’پکنک‘ نامی بینڈ نے پرفارم کرنا تھا۔
ایک عینی شاہد کے مطابق وہ ہال کی بالکونی میں تھے جب انھوں نے فائرنگ کی آواز سنی۔
’ہمیں پہلے سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا۔ پھر میں نے دیکھا کہ کچھ دہشتگرد لوگوں پر گولیاں برسا رہے تھے۔ انھوں نے پیٹرول بم بھی پھینکے اور ہر چیز کو آگ لگ گئی۔‘
ایک اور عینی شاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’اچانک ہمارے پیچھے دھماکے ہوئے۔ فائرنگ ہوئی اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ ہر کوئی سیڑھیوں کی طرف دوڑا۔‘
اس واقعے کے بعد روس نے ہوائی اڈوں اور سٹیشنوں پر سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ اس واقعے کی تصاویر ’خوفناک ہیں اور انھیں دیکھنا مشکل ہے۔‘
واضح رہے کہ روس میں امریکی سفارتخانے نے اس ماہ کے شروع میں خبردار کیا تھا کہ ’شدت پسند‘ ماسکو میں حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
یہ واقعہ ولادیمیر پوتن کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد پیش آیا ہے تاہم انھوں نے اس حملے پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک معاون نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
ادھر امریکہ نے کہا ہے کہ اس ماہ کے اوائل میں روس کو ممکنہ حملے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ اس نے مارچ کے اوائل میں روسی حکام کو خبردار کیا تھا کہ ممکنہ طور پر ماسکو میں ’بڑے اجتماعات‘ کو نشانہ بنا کر حملہ کیا جائے گا۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا کہ اس ماہ کے اوائل میں امریکی حکومت کے پاس ماسکو میں ایک منصوبہ بند دہشت گرد حملے کے بارے میں معلومات تھیں جس میں ممکنہ طور پر بڑے اجتماعات کو نشانہ بنایا جانا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن نے یہ معلومات روسی حکام کے ساتھ شیئر کی ہیں۔ اس سے قبل بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار گورڈن کوریرا نے کہا تھا کہ کریملن نے ان وارننگز کو ’پروپیگنڈا‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
عالمی رہنما ماسکو میں ہونے والے حملے پر رد عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے ایکس پر لکھا کہ ’ماسکو سے آج رات کی تصاویر خوفناک ہیں، ہماری ہمدردیاں متاثرین، زخمیوں اور روسی عوام کے ساتھ ہیں۔‘
جرمن وزارت خارجہ نے بھی اس حملے کو ’ہولناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس کے پس منظر کی فوری تحقیقات ہونی چاہیے۔‘
ماسکو میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے سے صدمے میں ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل جان کربی کا کہنا تھا کہ ’ہماری ہمدردیاں فائرنگ کے اس ہولناک حملے کے متاثرین کے ساتھ ہیں۔‘
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کے مشیر میخیلو پوڈولیاک نے یوکرین کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ انھوں نے ایکس پر پوسٹ کیا، ’یوکرین نے کبھی بھی دہشت گردی کے طریقوں کا سہارا نہیں لیا ہے، اس جنگ میں ہر چیز کا فیصلہ صرف میدان جنگ میں کیا جائے گا۔‘
حملے کی مذمت
امریکا، جرمنی، اقوام متحدہ، یورپی یونین، فرانس، اسپین، اٹلی اور عرب ممالک سمیت کئی دیگر ممالک نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ امریکی صدارتی دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں اس حملے کو خوفناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فوری طور پر اس واقعے کا یوکرین کے تنازعے سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔
یوکرین کی وضاحت
یوکرین کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ کییف کسی بھی طرح سے اس واقعے میں ملوث نہیں۔ تاہم یوکرین کے خفیہ اداروں نے اسے روسی ‘جارحیت‘ کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماسکو کے خصوصی دستے اس حملے کے پیچھے ہیں۔ سابق روسی صدر دیمتری میدویدیف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر اس حملے میں کسی بھی طرح یوکرین ملوث ہوا تو اس کے اعلی حکام کو تلاش کر کے دہشت گردوں کی طرح بے رحمی سے برباد کر دیا جائے گا۔
روسی سرحدوں پر ماسکو کے دستوں کو نشانہ بنانے والے یوکرین کے حامی ایک ملیشیا گروپ ”دا فریڈم آف رشیا لیگیون‘‘ نے بھی اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
داعش نے ذمہ داری قبول کرلی
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) نے اپنے ٹیلی گرام چینل عماق نیوز پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ داعش کے جنگجوؤں نے اس حملے میں کئی افراد کو ہلاک اور زخمی کیا اور بحفاظت اپنے ٹھکانوں پر واپس پہنچ گئے۔
جائے وقوعہ سے آنے والی تصاویر میں آگ کے شعلے اور دھوئیں کے بادل آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق کانسرٹ ہال کے ایک تہائی حصے میں آگ لگی ہے اور چھت تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق کچھ لوگ ابھی بھی اندر موجود ہیں۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروا نے عالمی برادری سے اس واقعے کی مذمت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے ’ایک بھیانک جرم‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے تمام کوشیشں کی جا رہی ہیں۔
ماسکو کے میئر سرگئی سوبیانین نے کہا ہے کہ ’انھیں متاثرین کے پیاروں کے لیے افسوس ہے۔‘
روسی میڈیا کے مطابق اس کانسرٹ کے لیے چھ ہزار 200 ٹکٹس فروخت کیے گئے تھے جہاں ’پکنک‘ نامی بینڈ نے پرفارم کرنا تھا۔
ایک عینی شاہد کے مطابق وہ ہال کی بالکونی میں تھے جب انھوں نے فائرنگ کی آواز سنی۔
’ہمیں پہلے سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا۔ پھر میں نے دیکھا کہ کچھ دہشتگرد لوگوں پر گولیاں برسا رہے تھے۔ انھوں نے پیٹرول بم بھی پھینکے اور ہر چیز کو آگ لگ گئی۔‘
ایک اور عینی شاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’اچانک ہمارے پیچھے دھماکے ہوئے۔ فائرنگ ہوئی اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ ہر کوئی سیڑھیوں کی طرف دوڑا۔‘
اس واقعے کے بعد روس نے ہوائی اڈوں اور سٹیشنوں پر سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
واضح رہے کہ روس میں امریکی سفارتخانے نے اس ماہ کے شروع میں خبردار کیا تھا کہ ’شدت پسند‘ ماسکو میں حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
یہ واقعہ ولادیمیر پوتن کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد پیش آیا ہے تاہم انھوں نے اس حملے پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک معاون نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن کا قیام
روسی صدر کے ترجمان دیمتری پیشکوف نے بتایا کہ صدر ولادیمیر پوٹن کو ہر طرح کی معلومات فوری طور پر پہنچائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس دہشت گردانہ واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بھی قائم کر دیا گیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے اسے ایک خونریز دہشت گردانہ حلمہ قرار دیا۔ ان کے بقول عالمی برادری کو اس گھناؤنے جرم کی مذمت کرنی چاہیے۔
روسی نیشنل گارڈزنے بتایا ہے کہ کنسرٹ ہال کے ارد گرد کے علاقوں میں نگرانی کی جار ہی ہے اور حملہ میں ملوث افراد کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔