واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) ایک عالمی میڈیا رائٹس گروپ نے پاکستانی حکام سے صحافی جام صغیر احمد لاڑ کے قتل کی تحقیقات کی کارروائی تیز کرنے اور ملک میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے بیچ میڈیا کے تحفظ اور آزادی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہفتہ 23 مارچ کو اسلام آباد سے موصولہ جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق امریکہ میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے پاکستانی حکام پر پر زور دیا ہے کہ وہ رواں ماہ کے شروع میں ہونے والے جام صغیر احمد لاڑ کے قتل کی تحقیقات ”تیز اور شفاف‘‘ طریقے سے کروائیں اور اس امر کا تعین کریں کہ آیا ”اس کا تعلق ان کی صحافت سے تھا۔‘‘
جام صغیر احمد لاڑ، روزنامہ خبریں کے نامہ نگار تھے جو اردو زبان کا ایک مقبول اخبار ہے۔ جام صغیر پاکستان کے مرکزی صوبے پنجاب میں دہشت گردی کی اس واردات میں گولی کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے تھے۔
مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق ان پر فائرنگ خان پور صدر تھانہ کے حدود میں نواں کوٹ میں نامعلوم مسلح افراد نے کی تھی۔ فائرنگ اُس وقت کی گئی تھی جب وہ روزہ افطار کرنے کے بعد اپنے دفتر میں بیٹھے تھے۔
امریکہ میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے زور دے کر کہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے بہیمانہ قتل اور پھر سزا سے بچ نکلنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ سی پی جے ایشیا کے پروگرام کوآرڈینیٹر beh lih yi نے جمعہ کو دیر گئے ایک بیان میں کہا، ”پاکستان کی حکومت کو میڈیا کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہییں اور وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ صحافی انتقامی کارروائیوں کے خوف کے بغیر رپورٹنگ کر سکیں۔‘‘
پاکستان میں فوج پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف حملے، انہیں دھمکیاں دینے اور ان کے ساتھ آن لائن بدسلوکی کی شکایات عام ہو چکی ہیں۔ گزشتہ ماہ 40 سے زائد صحافیوں اور یوٹیوبرز کو حکام کی طرف سے طلب کر کے ان سے پوچھ گچھ کی گئی تھی خاص طور پر اعلیٰ کورٹ کے ججوں پر تنقید کیے جانے کے معاملے میں ان کی سرزنش کی گئی تھی۔
امریکی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے ڈیٹا کے مطابق اس ملک میں 1992ء سے اب تک 64 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔
جنوبی ایشیا کا یہ ملک سی پی جی کے 2023ء کے عالمی استثنیٰ انڈیکس میں 11 ویں نمبر پر تھا۔ اس انڈیکس میں صحافیوں کے قاتلوں کو سزا نہ ملنے کے حساب سے ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔