ماسکو حملہ: کیا روس نے امریکی انتباہ کو نظر انداز کیا؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) کسی بھی حملے کے بعد ہمیشہ یہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں یہ اسے کیوں نہیں روکا جا سکا یا اس کا پہلے سے پتہ کیوں نہیں چل سکا۔ لیکن ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی سطح تناؤ اور عدم اعتماد کی صورتحال ہے، پر ایک ماسکو حملے نے ولادیمیر پوتن کے لیے بطورخاص ایک مشکل مسئلے کو کھڑا کر دیا ہے۔ اور اس میں زیادہ تو اس وجہ سے ہے کیونکہ انتباہ واشنگٹن کی جانب سے آیا۔

سات مارچ کو امریکہ نے اپنے شہریوں کو بطور خاص خبردار کیا تھا۔ ان رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ ’دہشت گروں‘ کا ماسکو میں بڑے اجتماعات پر جلد حملہ کرنے کے منصوبوں کا امکان ہے۔ اس میں امریکہ نے بطور خاص کنسرٹ کا ذکر بھی کیا تھا۔ امریکہ نے اس شہر میں موجود اپنے شہریوں کو کہا تھا کہ وہ اگلے 48 گھنٹوں میں بڑے اجتماعات میں جانے سے گریز کریں۔

شاید یہ وقت وہ نہیں جو بتایا گیا لیکن باقی سب تفصیلات 22 مارچ کے واقعات سے بہت ملتی ہیں۔

یہ بھی واضح نظر آتا ہے کہ واشنگٹن کے پاس ’آئی ایس‘ کے حوالے سے کسی نہ کسی قسم کی انٹیلیجنس موجود تھیں۔

خئال رہے کہ نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے ایک بیان جاری کیا ہے اور اس میں تسلیم کیا ہے کہ ماسکو حملے کے پیچھے وہ ہے۔

اپنے شہریوں کو انتباہ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ نے روس کو براہ راست بھی آگاہ کر دیا تھا۔

ایک امریکی اہلکار نے ان حملوں کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ ’امریکی حکومت نے خبردار کرنے کی اپنی دیرینہ پالیسی کے مطابق روسی حکام کو آگاہ کیا تھا۔‘

بہت سے ذریعے ہوتے ہیں جن کی مدد سے دو ممالک ایک دوسرے سے خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں، چاہے یہ ممالک دوست نہ بھی ہوں اتحادی نہ بھی ہوں تب بھی ان معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے اور بطور خاص ان مواقع پر جب شہریوں پر حملوں کا خطرہ ہو۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ماسکو نے انتباہ کو مسترد کیا۔

ان حملوں سے تین دن پہلے روس کے صدر نے فیڈرل سکیورٹی سروس کے بورڈ سے خطاب کیا جس کا کام ملک کا دفاع ہے۔

انھوں نے سکیورٹی سروسز کے رہنماؤں سے کہا کہ ہماری سب سے بڑی ترجیح ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ کی حمایت ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یوکرین نے اسے ’دہشت گردی کے ہتھکنڈوں‘ سے تعبیر کیا ہے۔

صدر پوتن نے روس کے اندر ممکنہ حملوں کے بارے میں مغرب کے ’اشتعال انگیز بیانات‘ پر بھی براہ راست بات کی۔ انھوں نے کہا کہ انتباہات ’صرف بلیک میلنگ اور ہمارے معاشرے کو ڈرانے اور غیر مستحکم کرنے کے ارادے سے ملتے جلتے ہیں۔‘

اس سے امریکہ اور روس کے درمیان موجود عدم اعتماد کا پتا چلتا ہے کہ ماسکو واشنگٹن کی جانب سے خبردار کیے جانے کو سننا نہیں چاہتا اور وہ اسے یوکرین کے تنازعے کی وجہ سے اسے دھمکی کے طور پر دیکھتا ہے۔

ابھی ہمیں معلوم نہیں کہ امریکہ کے پاس موجود معلومات کی نوعیت کیا تھی یا وہ کتنی واضح تھیں۔ انٹیلیجنس اکثر مبہم ہوتی ہے یا اس پر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے۔

لیکن امریکہ کے پاس بہت بڑا انٹیلیجنس کا نظام ہے اور وہ آئی ایس کو بغور نظروں میں رکھتا ہے۔

آئی ایس کی جس شاخ پر ماسکو میں حملہ کرنے کا شک ہے، اسی پر کابل ائیر پورٹ پر سنہ 2021 میں کیے جانے والے حملے اور حال ہی میں عراق میں ہونے والی تباہ کن بمباری میں ملوث ہونے کا شبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

لیکن اگر تو جو انٹیلیجنس معلومات روس سے شیئر کی گئیں وہ درست تھیں خاص طور پر نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے حوالے سے تو پوتن اور ایف ایس پی اس وجہ سے مشکل میں ہوں گے کہ انھوں نے اس انتباہ کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا۔

اور اگر ایسا ہے تو شاید یہ ماسکو کے لیے یہ آسان ہو کہ وہ یہ تسلیم کرنے کے بجائے کہ اس نے کچھ کھو دیا ہے وہ اس حملے کو کسی بھی طرح سے یوکرین سے جوڑے اور اس الزام کو ہٹانے کے لیے اور وہاں روسی کارروائیوں کی حمایت کے لیے ایسا کرے۔

عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

یہ شام آٹھ بجے سے کچھ ہی دیر پہلے کی بات ہے جب جمعے کی رات پکنک نامی راک بینڈ کے کنسرٹ میں شرکت کے لیے کروکس سٹی ہال کا آڈیٹوریم شائقین سے بھر رہا تھا۔

ایک فوٹوگرافر ڈیو پریمو جو ماسکو کے اس ہال میں ہونے والے حملے کے عینی شاہدین میں سے ہیں نے دیکھا کہ حملے کا آغاز اوپر کی سیڑھیوں کے پاس بالکنی سے ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ خاکی کپڑوں میں ملبوس تھے، مجھے نہیں معلوم وہ کون تھے، دہشت گرد، فوجی جو کوئی بھی تھے آڈیٹوریم میں گُھسے اور انھوں نے اپنی رائفلوں سے لوگوں پر حملہ شروع کر دیا۔

مسلح حملہ آور تھیٹر کے باہر عمارت کے باہر سے گزرے تھے۔ جیسے ہی وہ اندر آئے وہ لوگوں پر فائرنگ کر رہے تھے اور انھیں مار رہے تھے، زخمی کر رہے تھے۔

اطلاعات کے مطابق کنسرٹ کے لیے کل 6200 ٹکٹیں فروخت ہوئی تھیں لیکن جلد ہی گیٹ پر موجود سکیورٹی کم ہو گئی۔

ایک گارڈ کا کہنا ہے کہ اس کے چار ساتھی تشہیری بورڈ کے پیچھے چھپ گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’حملہ آور ہم سے 10 میٹر کی دوری پر گزرے، انھوں نے گراؤنڈ فلور پر موجود لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔‘

کسی کو نہیں معلوم کے حملہ آوروں کی کل تعداد کتنی تھی۔ لیکن اوپر والی منزل سے بننے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چار افراد کیموفلوج ہتھیاروں سے لیس تھے۔ وہ ہلکی براؤن ٹائلز والے فرش پر ایک دوسرے سے کچھ ہی میٹر کی دوری پر تھے۔

کئی سالوں میں روسی شہریوں پر ہونے والے اس ہولناک حملے میں پہلے حملہ آور نے کھڑکیوں کی جانب موجود لوگوں کو پہلے نشانہ بنایا۔

زخمی ہونے والے زیادہ تر لوگ ماسکو کے نواحی دیہات سے آئے تھے۔

اس کے بعد پھر دوسرا حملہ آور آیا۔ تھوڑی دیر میں تیسرا حملہ بھی آ گیا۔ اس حملہ آور نے بیگ پہنا ہوا تھا وہ اس کے پیچھے گیا۔ چوتھے شخص نے اس کو ہتھیار دیے اور پھر وہ آڈیٹوریم کی جانب بڑھے، جہاں میٹل ڈیٹیکٹر کی چیکنگ کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔

ایک خاتون جو آڈیٹوریم کے داخلی دروازے کے باہر موجود کیفے سے اپنی گیارہ سالہ بیٹی کے لیے آئس کریم خرید رہی تھیں کہتی ہیں کہ جب شور سنا گیا تو ایک شخص نے چیخ کر کہا کہ نیچے فرش پر لیٹ جاؤ۔

خاتون نے بی بی سی رشین سروس کو بتایا ’ہم بچوں کے پاس دوڑے، نیچے لیٹ گئے اور وہاں موجود میزوں اور کرسیوں کو اپنی ڈھال بنا لیا۔ بہت سے زخمی لوگ ہماری جانب دوڑے ہوئے آئے۔‘

یہ سب کچھ کنسرٹ شروع ہونے سے کچھ ہی منٹ پہلے ہوا، اس لیے لوگوں میں سے کچھ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ شور شاید کنسرٹ کا ہی حصہ ہے۔

سوفیکو کورکاشوی کہتی ہیں کہ پہلے میں نے سمجھا یہ کوئی نہ ختم ہونے والی آتش بازی ہے، میں ہال کی جانب ایک بار گئی، پھر دوسری بار اور پھر تیسری بار مجھے سمجھ آیا کہ ہال کے اندر موجود لوگوں نے ہر جانب بھاگنا شروع کر دیا ہے۔

ڈیو پریمو ایک فوٹوگرافر ہیں وہ کہتے ہیں افراتفری کا عالم تھا۔ تھیٹر میں موجود کچھ لوگوں نے نیچے سیٹوں میں بیٹھنے کی کوشش کی، لیکن حملہ آوروں نے تھیٹر میں سامنے کی نشستوں پر براہ راست فائرنگ شروع کر دی، جس کی وجہ سے ان لوگوں کے دفاع کے لیے بہت کم صورتحال رہ گئی تھی۔

عینی شاہدین کہتے ہیں کہ حملے کی زد میں آنے والوں میں بوڑھے اور بچے سبھی شامل تھے۔

ایک خاتون جو کہ آڈیٹوریم میں اوپر کی منزل کی جانب تھیں اور جب حملہ ہوا تو نیچے سٹیج کی جانب دوڑیں بتاتی ہیں کہ انھوں نے دیکھا کہ سامنے کی سیٹوں کی جانب ایک شخص فائرنگ کر رہا تھا۔

’ہم پردوں کے پیچھے بھاگ گئے، کراکس میں یونیفارم میں موجود ایک اہلکار نے ہمیں کہا کہ بھاگ جاؤ اور ہم بنا گرم کپڑوں کے باہر کار پارکنگ کی جانب دوڑ پڑے۔

مارگریٹا اپنے شوہر کے ہمراہ کنسرٹ دیکھنے آئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی نے کہا کہ نیچے کی سیڑھیوں کی جانب بھاگو اور وہاں مکمل اندھیرا تھا۔۔۔ ہم جب تک باہر آتے تب تک ہم اپنے پیچھے گولیاں چلنے کی آوازیں سن سکتے تھے۔

ویٹلے نامی ایک شخص نے بتایا کہ انھوں نے دیکھا کہ حملہ بالکونی سے شروع ہوا اور ’انھوں نے کچھ پٹرول بم پھینکے، ہر چیز جلنا شروع ہو گئی۔‘

وہ پیٹرول بم تھے یا پھر آگ لگانے والی کوئی اور چیز، اس کے شعلے تیزی سے پھیلنے لگے۔ آگ بھجانے والا عملہ حملوں کی وجہ سے عمارت کے قریب نہیں جا سکا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں