نیو یارک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) اقوام متحدہ کے حقائق کی تلاش کرنے والے ایک مشن نے ایران میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دے دی ہے۔ اس مشن کے مطابق یہ کریک ڈاؤن ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے مترادف ہے۔
عالمی ادارے کے اس مشن نے ایرانی خواتین کے حقوق کے لیے ملک بھر میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف ریاستی طاقت کے بھرپور اور ‘سفاکانہ‘ استعمال سے متعلق کہا کہ یہ کریک ڈاؤن ‘انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تہران میں ملکی حکومت کے اقدامات سے متعلق جاری کردہ کسی بین الاقوامی رپورٹ میں ایسی سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کا غیر جانبدار تفتیشی مشن
عالمی ادارے کے حقائق کی تلاش کرنے والے جس غیر جانبدار بین الاقوامی مشن نے ایران میں حکومت کی طرف سے حقوق نسواں کی ملک گیر تحریک کے خلاف اقدامات کا جائزہ لیا، اس نے اپنی رپورٹ اسی ہفتے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ایک باقاعدہ اجلاس میں پیش کی۔
اس رپورٹ کی ضخامت 300 صفحات سے زیادہ ہے اور اس میں بین الاقوامی ماہرین نے یہ تفصیلات بتائی ہیں کہ ایرانی حکومت نے کس کس طرح مظاہرین کے خلاف جبر و تشدد کا سفاکانہ استعمال کیا۔
حقائق کا تعین کرنے والے اس مشن کی خاتون سربراہ سارہ حسین نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ چند واقعات میں تو ایرانی حکام نے جو کچھ کیا، وہ ‘انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے زمرے میں آتا ہے۔
ایران میں 22 سالہ کرد نژاد خاتون مھسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی ملک گیر احتجاجی تحریک کے آغاز کے دو ماہ بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے اپنا یہ تفتیشی مشن نومبر 2022ء میں اس لیے تشکیل دیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں ‘انسانی حقوق کی خراب ہوتی ہوئی صورت حال‘ کا جامع طور پر جائزہ لیا اور ملکی عوام کے خلاف ممکنہ جرائم کو دستاویزی شکل میں ریکارڈ کیا جا سکے۔
تب حالات کیسے تھے؟
جن دنوں جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل نے یہ مشن تشکیل دیا تھا، تب یہ عمومی شبہ پیدا ہو چکا تھا کہ ملک میں ‘زن، زندگی، آزادی‘ کے موٹو کے ساتھ جاری احتجاجی تحریک کے دوران ایران حکام مظاہرین کے خلاف غیر متناسب حد تک زیادہ ریاستی طاقت استعمال کر رہے تھے۔
اس تناظر میں تفتیشی مشن کی سربراہ سارہ حسین نے جنیوا میں عالمی ادارے کی ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا، ”ان ریاستی کارروائیوں کے دوران جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔‘‘
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی ماہر قانون سارہ حسین کے مطابق ایران میں اس کریک ڈاؤن کے دوران ماورائے عدالت قتل کیے گئے، تشدد اور ریپ کیا گیا، لوگ جبری طور پر غائب کر دیے گئے اور صنفی تخصیص کی بنیاد پر مظاہرین کو عتاب کا نشانہ بنانے کی مثالیں بھی دیکھنے میں آئیں۔
ان حقائق کے برعکس تہران حکومت کی طرف سے ہمیشہ اس بات کی تردید کی جاتی رہی ہے کہ حکام نے احتجاجی تحریک کے دوران مظاہرین کے خلاف طاقت کا کوئی بےجا استعمال کیا یا پھر یہ کہ مھسا امینی کی موت دوران حراست کیے جانے والے تشدد کا نتیجہ تھی۔
لیکن دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ حقائق کا تعین کرنے والے غیر جانبدار بین الاقوامی مشن کے مطابق مھسا امینی کو ایران کی ”اخلاقی پولیس کی حراست میں‘‘ مار مار کر ہلاک کیا گیا۔
134 گواہوں کے بیانات
سارہ حسین نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ اقوام متحدہ کے اس مشن نے اپنی رپورٹ کی تیاری کی عمل میں بہت سے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کا معائنہ اور تجزیہ کیا۔
انہوں نے بتایا، ”ہم نے حکومتی دستاویزات اور سرکاری اہلکاروں کے عوامی سطح پر دیے گئے بیانات کا بھی تجزیہ کیا اور ان کئی رپورٹوں کا بھی جائزہ لیا، جو ایران میں انسانی حقوق کی اعلیٰ کونسل نے تیار کی تھیں۔‘‘
بیرسٹر سارہ حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہم نے اپنی حتمی رپورٹ کی تیاری سے قبل 134 عینی شاہدین کے بیانات کا تجزیہ کر کے اس کے نتائج بھی اس دستاویز میں شامل کیے اور ساتھ ہی ڈیجیٹل سوشل میڈیا اور قانونی دستاویزات سے حاصل ہونے والی معلومات کا بھی سہارا لیا۔‘‘
انہوں نے کہا، ”ہمارے مواد کی بنیاد یہی تمام ذرائع تھے۔ ہم نے بنیادی اور ثانوی ذرائع سے موصولہ اطلاعات سے نتائج اخذ کیے اور انہی کی مدد سے ہم اپنے تحقیقاتی مشن کے لیے ایک ٹھوس بنیاد مہیا کر سکے۔‘‘
اس تفتئیشی عمل کے دوران جن گواہوں نے مشن کے سامنے بیانات دیے، ان میں سے ”بہت سے گواہان کے جسموں پر ابھی تک ایسے نشانات ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ایرانی سکیورٹی فورسز نے ان کو ٹارگٹ کر کے ان پر فائرنگ کی۔‘‘
‘سویلین آبادی پر منظم حملہ‘
یو این ہیومن رائٹس کونسل کے لیے تیار کردہ اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ایران میں حقوق نسواں کی ‘زن، زندگی، آزادی‘ نامی تحریک کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 551 افراد مارے گئے، جن میں سے کم از کم 49 خواتین تھیں اور 68 بچے۔
اس کے علاوہ اس کریک ڈاؤن کے دوران خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ نسلی اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بھی خاص طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
سارہ حسین نے جینوا میں انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ یہ تمام کارروائیاں ایرانی حکام کی طرف سے ”سویلین آبادی کے خلاف ایک منظم حملے‘‘ کا حصہ تھیں۔
اس رپورٹ میں تفتیشی مشن نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ایرانی حکومت سیاسی مخالفین، منحرفین اور مظاہرین کو موت کی سزائین دینے کا سلسلہ بند کرے اور ان تمام شہریوں کو بھی رہا کرے، جو ان مظاہروں کے بعد سے جیلوں میں بند ہیں۔ مزید یہ کہ کریک ڈاؤن کے متاثرین کے خاندانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی ختم کیا جائے۔