اسلام آباد (ڈیلی اردو) ملک میں قائم فوجی عدالتوں کی دوسری آئینی مدت آج رات 31 مارچ کو مکمل ہو جائے گی اور فوجی عدالتیں تحلیل ہو جائیں گی۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے حکومت اوراپوزیشن کے مابین معاملات طے نہیں پاسکے۔
تفصیلات کے مطابق دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے ملزمان کے مقدمات کی تیزی سے پیروی کے لیے 2015 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کی گئیں فوجی عدالتوں کی دوسری 2 سالہ آئینی مدت مکمل ہو گئی، جس کے بعد آج سے ان عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کا کام رک گیا ہے۔
حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید 2 سالہ توسیع کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اس سلسلے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن اب تک معاملات طے نہیں پاسکے۔
حکومت کو نئی آئینی ترمیم لانے کے لیے ایوان میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔
حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق بریفنگ کے لیے پارلیمانی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس 28 مارچ کو طلب کیا تھا لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں کے بائیکاٹ کے بعد حکومت کو اجلاس منسوخ کرنا پڑا۔
حکومتی ذرائع نے نجی ٹی وی چینل ڈان نیوز کو بتایا کہ فوجی عدالتوں میں مزید توسیع سے متعلق قانون کا ابتدائی قانونی مسودہ تیار کیا جا چکا ہے جبکہ وزارت قانون اور وزارت داخلہ کو 30 مارچ سے قبل ہی یہ ذمہ داری دی جاچکی ہے۔
فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت اور ٹرائل کی تعداد سے متعلق کوئی سرکاری ڈیٹا موجود نہیں ہے۔
تاہم گزشتہ برس نومبر میں قومی اسمبلی کو آگاہ کیا گیا تھا کہ فوجی حکام نے مارچ میں 2سالہ مدت کی تکمیل سے قبل دہشت گردی سے متعلق 185 مقدمات کا فیصلہ کرنا ہے۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے سوال کے تحریری جواب میں وزیر دفاع پرویز خٹک نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے لے کر اب تک وزارت داخلہ نے فوجی عدالتوں کو دہشت گردی کے 717 مقدمات ارسال کیے تھے جن میں سے 185 کا فیصلہ 30 مارچ کو دوسری آئینی مدت کی تکمیل تک ہو جانا چاہیے۔
وزیر دفاع نے فوجی عدالتوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 478 مقدمات کے فیصلے کیے جا چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مقدمات میں سزا کی شرح 60 فیصد سے زائد تھی۔
انہوں نے کہا کہ 284 مجرمان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جن میں سے 56 کو پہلے ہی پھانسی دی جاچکی تھی۔
پرویز خٹک نے کہا کہ 192 مجرمان کو سخت قید کی سزا سنائی گئی، 2 ملزمان رہا کیے گئے اور 54 مقدمات تکنیکی وجوہات کی وجہ سے خارج کردیے گئے تھے۔
وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری نے بتایا کہ حکومت اس مسئلے پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کافیصلہ کرچکی ہے کیونکہ ان کے تعاون کے بغیر فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع نہیں کی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کا ماننا ہے کہ 2015 میں سیاسی اتفاق رائے سے دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کی گئیں فوجی عدالتوں نے نتائج دیے اور سپریم کورٹ نے بھی ان عدالتوں کے فیصلوں کو برقرار رکھا۔
دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک مرتبہ پھر فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی حکومتی کوشش کی مخالفت کی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے دورِ حکومت میں بھی اس حوالے سے سخت موقف اپنایا تھا۔