اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بشام میں منگل کو چینی انجینیئرز پر حملے کی اب تک کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ جبکہ پاکستان اور چین دونوں نے اسے دہشتگردی کا واقعہ قرار دیا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق اس حملے میں پانچ چینی انجینیئرز جبکہ ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکام نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی چینی سفارتکاروں سے مل کر دکھ کا اظہار کیا۔ چین کی طرف سے اس حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان میں چینی انجینیئرز یا سی پیک منصوبوں سے جڑے افراد کو عسکریت پسند تنظیموں نے نشانہ بنایا ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں چینی حکام یا کام کرنے والوں کو کون نشانہ بنا رہا ہے اور کیوں؟
واضح رہے کہ چین پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں مختلف منصوبوں کے ذریعے سڑکیں، ڈیم، پائپ لائن اور بندرگاہ پر کام جاری ہے۔
2021 میں بھی داسو منصوبے کے قریب چینی انجینیئرز کی بس پر حملہ ہوا تھا جس سے پاکستان اور چین میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے جوڑا گیا تھا۔ اس حملے میں نو چینی شہریوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے جس پر دو ملزمان کو سزائے موت بھی سنائی گئی تھی۔
داسو وہ مقام ہے جہاں پاکستان اور چین کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ڈیم کی تعمیر کا کام جاری ہے اور یہ اس مقام پر ہونے والا دوسرا حملہ ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے حملے سے لاتعلقی کا اظہار
اس بار حملہ ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد تحریکِ طالبان پاکستان نے واقعے سے کنارہ کشی اختیار کی۔ جبکہ حکام نے اسے خودکش دھماکہ کہنے کے بعد کسی گروہ پر خدشے کا اظہار نہیں کیا ہے۔
شانگلہ ڈسٹرکٹ خیبر پختونخوا کی مالاکنڈ ڈویژن کا حصہ ہے۔ اس کی تین تحصیلوں میں سے ایک تحصیل بشام میں 26 مارچ کو یہ حملہ ہوا جس کے نتیجے میں بس کھائی میں گِر گئی۔
پولیس نے بتایا کہ حملے کے وقت چینی انجینیئرز اسلام آباد سے آئے تھے اور داسو ڈیم پر کام کرنے جا رہے تھے۔ پولیس نے مزید بتایا کہ اس علاقے کی سرحد گلگت بلتستان سے ملتی ہے۔
تاحال دو گروہ پاکستان میں چینی حکام کو نشانہ بناتے رہے ہیں: بلوچ شدت پسند اور شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ۔ اپریل 2022 میں ایک خاتون خودکش بمبار نے خود کو کراچی یونیورسٹی کے چینی سینٹر کے سامنے اڑا دیا تھا جس کے نتیجے میں تین چینی اساتذہ ہلاک ہوگئے تھے۔
اس حملے کے بعد حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ سی پیک کے منصوبوں کو کچھ وقت کے لیے روک دیا گیا ہے۔
سی پیک منصوبوں سے جڑے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ 2022 میں ہونے والے حملوں کے بعد چینی افراد، خاص طور سے وہ جن کا تعلق سی پیک منصوبوں سے ہے، انھیں ان کے ملک واپس بھیجا گیا ہے جبکہ جن منصوبوں پر تاحال کام جاری ہے ان پر افرادی قوت کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
چینی حکام کی جانب سے اس فیصلے کے بارے میں اس وقت کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور سپیشل انیشیئٹو احسن اقبال نے اس اطلاع کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں تو ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی بلکہ یہ ضرور ہے کہ چینی اب نئے منصوبوں پر کام کرنا چاہتے ہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا تھا کہ ’انٹیلیجنس اداروں کو سابق حکومت کی جانب سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں ایسے عناصر (شدت پسندوں) نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔‘
اس دوران احسن اقبال نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’ایک بڑی پریشانی یہ تھی کہ اب سکیورٹی کا کیا جائے؟ چینی حکام نے کہا کہ وہ اپنی سکیورٹی کا خود بندوبست کرلیں گے۔ لیکن بعد میں معاملات صحیح ہونے پر دوبارہ فوج کی مدد لی گئی۔‘
تجزیہ نگار ضیغم خان نے سوال اٹھایا کہ چینی انجینیئرز کی سکیورٹی کیسے ممکن بنائی جائے جبکہ ان کا کام ہی پبلک میں آنا جانا ہے؟‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں پاک-چین اقتصادی راہداری کے منصوبے شروع ہونے کے دوران بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر اور گلگت بلتستان سے کئی وعدے کیے گئے تھے جو پورے نہیں ہوسکے۔
چین کے خلاف ’بغض‘ کی وجہ کیا ہے؟
پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چین پاکستان میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے تحت سڑکیں، زراعت، بجلی اور پانی کے منصوبوں پر کام ہو گا۔
سی پیک بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک بہت اہم حصہ ہے جس کی بنیاد سنہ 2013 میں مسلم لیگ ن کے دور میں رکھی گئی تھی۔
’ون پلس فور‘ کہے جانے والے اس منصوبے میں ون سی پیک کو کہا جاتا ہے اور چار اس کے تحت منصوبے ہیں جن میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف نے سنہ 2006 میں چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے جن میں 50 کے قریب منصوبوں پر کام ہونا تھا۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے سابق مشیر ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بتایا کہ ’یہ منصوبوں سے زیادہ ایک وِش لسٹ (یا خواہشات کی فہرست) تھی۔ جس میں یہ واضح ہے کہ اس ایم او یو کے تحت کام نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ ناممکن تھا۔‘
تجزیہ کار ضیغم خان نے کہا کہ بلوچ شدت پسند یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ چینی منصوبوں سے ان کے علاقے کی ڈیموگرافی اور بچے کچے وسائل ختم ہوجائیں گے۔ ’یا پھر یہ وسائل ان لوگوں کے حوالے کر دیے جائیں گے جن کا تعلق ان کے صوبے سے نہیں ہے۔ نتیجتاً یہ گروہ چینی حکام کو مسلسل نشانہ بناتا رہا ہے۔‘
دوسری جانب ضیغم خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کی کوہستان سے ملنے والی سرحد میں چین کے خلاف بغض پایا جاتا ہے جس کا براہِ راست تعلق چین کے سنکیانگ صوبے میں جاری چینی مسلمانوں کے ساتھ زیادتی اور تعصب ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’داعش بطور گروہ افراتفری میں اپنی جگہ بناتا ہے اور چین پر حملہ کر کے بھی یہ وہ یہی حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ چین کے صوبے میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے واقعات سے اس نے گلگت بلتستان کے کوہستان سے لگنے والی سرحد سے کافی ہمدردی اکٹھا کی ہے۔‘
چینی حکام نے اپنے ایک بیان میں پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ جبکہ پاکستان کے دفترِ خارجہ اور فوج نے اپنے اپنے بیان میں ایسے تمام تر گروہوں کو متنبہ کیا ہے جو چین کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
ضیغم خان نے کہا کہ ’اس وقت حکومت کو اس لیے ایسا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ شرمندگی کی بات ہے کہ پاکستان میں چینی باشندوں پر متواتر حملے ہوتے رہے ہیں۔ اگر ایسا چلتا رہا تو یہ جو ایک دو ممالک بشمول چین جو پاکستان میں سرمایہ لگا رہے ہیں، یہ بھی پیچھے ہٹ جائیں گے۔‘
کسی گروہ کی جانب سے تاحال اس حملے کی ذمہ داری قبول نہ کیے جانے پر بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس کے پیچھے’فری لانس جہادی‘ بھی ہوسکتے ہیں جو باقاعدہ کسی کالعدم تنظیم سے وابستہ نہیں۔
اس حملے میں ’فری لانس جہادی‘ بھی ملوث ہو سکتے
شدت پسندی پر نظر رکھنے والے صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ جہادی تنظیموں کے علاوہ ’فری لانسر جہادی‘ بھی سرگرم ہیں جنھیں کوئی بھی مخصوص کاموں کے لیے متحرک کر سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں جب چینی باشندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں جو جہادی گروہ ہیں وہ پاکستان طالبان سے منسلک بھی ہیں اور کچھ آزاد گروہ بھی ہیں۔
پاکستان میں چینی باشندوں پر جو سب سے بڑے دو حملے ہوئے ہیں وہ خیبرپختونخوا میں ہوئے ہیں۔ ایک اگست 2021 میں ہوا تھا جس میں داسو ہائیڈرو پراجیکٹ پر کام کرنے والے نو چینی انجینیئرز اور مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور دوسرا ہے وہ گذشتہ روز بشام میں ہوا ہے۔
صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے ’ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کسی بھی گروہ نے قبول نہیں کی تھی بلکہ پچھلے حملے سے بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دوری اختیار کی تھی۔ میں توقع کر رہا تھا کہ شاید یہ دولتِ اسلامیہ خُراسان کی کوئی کارروائی ہو لیکن اب تک ان کی جانب سے بھی ذمہ داری لینے کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ خُراسان والے کبھی بھی کسی حملے کی ذمہ داری فوری طور پر قبول نہیں کرتے۔ ٹی ٹی پی نے بھی حملے میں ملوث ہونے کی تردید کر دی ہے۔
احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ اب جن پر اس حملے میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے وہ ایسے جہادی عناصر ہیں جنھیں فری لانسرز کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق ماضی میں جہادی تنظیموں سے تعلق رہا ہے جیسے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ یا القاعدہ برصغیر کے ساتھ۔ آج کل وہ آزاد حیثیت میں کام کر رہے ہیں تو ان کو حملے آؤٹ سورس کیے جاتے ہیں اور ان کو اہداف دیے جاتے ہیں، اور وہ پھر خودکش حملہ آور بھرتی کرتے ہیں اور حملہ کر دیتے ہیں۔
ماضی میں داسو میں چینی انجینیئرز پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے پاکستانی اداروں نے ایک انکوائری رپورٹ مرتب کی تھی جس میں ماضی میں ٹی ٹی پی سے منسلک رہنے والے کمانڈر طارق ’بٹن خراب‘ پر اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ ’کچھ عرصے پہلے پاکستان میڈیا پر ایسی خبریں بھی چلیں تھیں کہ طارق بٹن خراب افغانستان میں مارا گیا ہے۔ لیکن جب ہماری ٹی ٹی پی یا افغان طالبان سے بات ہوئی تو انھوں نے اس خبر کی تردید کردی تھی۔ ہوسکتا ہے اس بار بھی اس حملے میں طارق بٹن خراب کا نام آئے کیونکہ یہ حملہ بھی داسو کے حملے جیسا ہی ہے۔‘