افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات، برطانوی وزیر پر مقدمہ

لندن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) برطانیہ کے ایک وزیر کو افغانستان میں برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے جنگی جرائم کے مرتکب فوجیوں کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار پر سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

برطانوی حکومت کے ایک وزیرکو افغانستان میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات کا سامنا کرنے والے فوجیوں کا نام ظاہر کرنے سے انکار کرنے کی وجہ سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر انہیں قید اور جرمانے یا جرمانے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

جانی میرسر جو سابقہ برطانوی فوجیوں سے متعلق امور کے وزیر ہیں، نے ان متعدد فوجی افسروں کی شناخت ظاہرکرنے سے انکار کیا ہے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں تعیناتی کے دوران مبینہ طور پر قتل اور بعد ازاں اُسے چھپانے کے بارے میں خود انہیں بتایا تھا۔

برطانوی وزیر اس حوالے سے بنائے گئے کمیشن اور عوامی انکوائری کے سامنے ان فوجیوں کے نام ظاہر کرنے سے انکار کردیا ہے جن کے بارے میں یہ پتہ لگایا جارہا ہے کہ آیا ایک یونٹ نے جنگ لڑنے کے قابل عمر والے مردوں یعنی اٹھارہ تا چالیس برس کی عمر کے مردوں کے ایک گروپ کو سزائے موت دی تھی اور بعد ازاں اس واقعے کو دبا دیا گیا تھا یا اس کی پردہ پوشی کی گئی تھی۔ اگرچہ ان مردوں کے اس گروپ کو، دوہزار دس تا دوہزارتیرہ کے درمیان جنگ زدہ ملک میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔

13 مارچ کو ایم پی سیکشن 2 برطانیہ کے انکوائریز ایکٹ 2005 ء کے تحت نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ نوٹس میں 42 سالہ میرسر سے کہا گیا کہ وہ پانچ اپریل شام چار بجے تک کمیشن کو ان سابقہ فوجیوں کے ناموں پر مشتمل اپنا بیان درج کروائیں۔ اگر کسی معقول عذر کے بغیر حکم کی تعمیل نہ کی گئی تو اس کی سزا قید اور جرمانہ یا جرمانہ ہو سکتی ہے۔

تحقیقات کے چیئرمین، چارلس ہیڈن کیو کے دستخط شدہ ریمارکس میں مزید کہا گیا ہے کہ لندن کی ہائی کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کے ذریعے اس حکم کو نافذ کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں میرسر کو ”قید‘‘ ہو سکتی ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ میرسر کی رضامندی کے بغیر قانونی ٹیم کے اراکین کے علاوہ کسی کے سامنے نام ظاہر نہیں کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں مکمل رازداری رکھی جائے گی۔

اس فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے میرسر کو 3 اپریل تک کا وقت دیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ جب انہوں نے انکوائری کو ثبوت دیے تب بھی انہوں نے نام ظاہر کرنے سے انکار کیا تھا۔

میرسر نے اسپیشل بوٹ سروس (ایس بی ایس) کے رکن کا نام ظاہر کرنے سے بھی انکار کر دیا جس نے کہا تھا کہ اسے ”ڈراپ ہتھیار‘‘ لے جانے کے لیے کہا گیا تھا- یہ ہتھیار جو ایک ایسے آپریشن میں بروئے کار لایا گیا جو غیر مسلح شخص کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

میرسر نے کہا، ”ایک چیز جس پر آپ قائم رہ سکتے ہیں وہ ہے آپ کی دیانت داری اور میں ان افراد کے ساتھ ایسا ہی کروں گا۔‘‘

میرسر خود برطانوی فوج کے ایک سابق افسر ہیں جو تین بارافغانستان میں خدمات انجام دینے پر مامور رہے ہیں۔ وہ 2015ء سے جنوب مغربی انگلینڈ کے پلائی ماؤتھ میں کنزرویٹیو پارٹی کے ممبر پارلیمان ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ جو لوگ مخبری کرتے ہیں انہیں ذہنی صحت کے مسائل ہوتے ہیں اور وہ کمزور ہوتے ہیں۔ میرسر کے قریبی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جیل جانے کے حوالے سے فکر مند تو ہیں لیکن نام صرف اس صورت میں ظاہر کریں گے جب ”ذرائع‘‘ انہیں اجازت دیں گے۔

وزیر اعظم رشی سونک کے دفتر نے میرسر کے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا لیکن کہا کہ ہے کہ لوگوں کو ”یقیناً‘‘ عوامی پوچھ گچھ کی تعمیل کرنی چاہیے۔

افغان خاندانوں نے برطانیہ کی خصوصی افواج پر افغانستان میں شہریوں کے خلاف ”قتل کی مہم‘‘ چلانے کا الزام لگایا ہے جبکہ وزارت دفاع کے سینئر افسران اور اہلکاروں نے تحقیقات کو روکنے کی کوشش کی۔

بی بی سی نے 2022ء میں رپورٹ کیا کہ ایس اے ایس کے ایک اسکواڈرن نے افغانستان کے چھ ماہ کے دورے کے دوران مشکوک حالات میں کم از کم 54 افراد کو ہلاک کیا، جن میں قیدی اور بچے بھی شامل تھے۔

یہ انکوائری رائل ملٹری پولیس، جو فوج کے اہلکاروں کی پولیسنگ کی ذمہ دار ہے، کی طرف سے کی گئی تھی جو دو تحقیقات کی چھان بین کر رہی ہے۔

اُدھر 2014ء میں خصوصی فورسز کی جانب سے دی گئی پھانسیوں کے الزامات کی جانچ کے لیے قائم کردہ ”آپریشن نارتھ مور‘‘ کے تحت کوئی الزامات سامنے نہیں آئے ، جبکہ موت کی سزاؤں میں بچے بھی شامل تھے۔

تین فوجیوں کو سروس پراسیکیوٹنگ اتھارٹی کے حوالے بھی کیا گیا تھا، لیکن کسی پر بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں