تل ابیب + بیروت (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیل پر حماس کے حملے کے ایک دن بعد آٹھ اکتوبر سے جنوبی لبنان، اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان جھڑپوں کا مرکز بن گیا ہے۔ ان جھڑپوں میں حزب اللہ کے جنگجو، رہنما اور لبنان میں مقیم حماس کے رہنما نشانہ بنے۔
معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ نے 14 فروری کو ایک خطاب میں اپنے حامیوں، خاص طور پر جنگجوؤں اور ان کے اہلخانہ سے جنوبی لبنان کے علاقوں اور سرحدی دیہات میں موبائل فون کا استعمال ترک کرنے کی تاکید کی۔
حزب اللہ نے غزہ جنگ اور اپنی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے عام رہائشیوں کو ایک سے زیادہ بار متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل نگرانی کے لیے لگائے گئے کیمروں اور موبائل فون تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔
ان آلات کی ممکنہ اسرائیلی دراندازی کے بارے میں بات گزشتہ مہینوں میں تیز ہوئی ہے۔ خاص طور پر حماس کے ممتاز رہنما صالح العروری کے قتل کے بعد سے۔
بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے میں ایک اپارٹمنٹ پر حملہ کر کے انھیں نشانہ بنایا گیا اور اس کا الزام اسرائیل پر لگایا جاتا ہے لیکن اس نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
اس میدان میں اسرائیل کی اعلیٰ صلاحیتوں کے بارے میں بحث کوئی نئی بات نہیں لیکن لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال آتا ہے کہ وہ کیسے گاڑیوں یا عمارت میں موجود اپنے ہدف کی نشاندہی کر لیتا ہے؟
فریقین کے درمیان معلومات جمع کرنے کی یہ جنگ کئی دہائیوں پر محیط ہے لیکن یہ ہوتا کیسے ہے؟ سمارٹ فون کو ہیک کرنے کا کیا مطلب ہے اور اس کا استعمال عسکری آپریشنز اور قتل کرنے میں کیسے ہوتا ہے؟
لبنانی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر عامر تابش نے بی بی سی کو بتایا کہ’ چاہے پرائیویسی ہو، یہ (سمارٹ فون) روزانہ کے استعمال کے لیے محفوظ نہیں لیکن جنگ کی صورت میں یہ آلہ جاسوسی بن سکتا ہے۔‘
تابش کا کہنا ہے کہ موبائل فون کیمرا، مائیکروفون اور لوکیشن کے ذریعے اہم ڈیٹا دیتا ہے اور ایسے متعدد طریقے ہیں جن سے ان کی ٹریکنگ ہو سکتی ہے۔
وائس پرنٹ
عامر تابش سمجھاتے ہیں کہ سمارٹ فونز میں زیادہ اچھی میعار کی آواز آتی ہے اور ان میں جدید دور کے مائیکروفون کی خصوصیات بھی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایک مجمے میں مطلوبہ شخص کی آواز کا فنگر پرنٹ یہ طے کرتا ہے کہ نشانہ وہاں موجود ہے۔ یہ ایک سماجی تقریب ہو سکتی ہے یا جنازہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی کا فون ہیک ہو چکا ہو تو اس شخص کی آواز کی نشاندہی کرنا ممکن ہوتا ہے اگر وہ وہاں بولے۔
کیمرا
عامر تابش کے مطابق فون کا کیمرا مائیکروفون کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور اسے دور سے چلایا جا سکتا ہے اور تصویر دیکھ کر ہدف کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
جب مطلوب شخص کی موجودگی کی تصدیق ہو جاتی ہے تو ڈرون یا سیٹلائٹ کے ذریعے ٹریکنگ شروع کر دی جاتی ہے۔
تحریر
اگر فون ہیک ہو جائے تو ہم جو کچھ بھی لکھتے ہیں وہ کسی جاسوس ایجنسی تک پہنچ سکتا ہے۔ فون پر ٹائپ کی گئی کوئی بھی چیز ریکارڈ ہو رہی ہوتی ہے، کون سی ایپ استعمال ہو رہی ہے اس متعلق معلومات جمع ہو رہی ہوتی ہیں، ای میل کی مانیٹرنگ ہو رہی ہوتی ہے اور فائلیں (مثلاً تصاویر، ویڈیو، پی ڈی ایف وغیرہ) نکالی جا رہی ہوتی ہیں۔
لوکیشن سسٹم
سمارٹ فون نیٹ ورک ٹرانسمیشن کو بہتر بنانے کے لیے مستقل اور مسلسل اپنے مقام کے بارے میں معلومات دیتا ہے۔ تابش کا کہنا ہے کہ ’سب سے آسان چیزوں میں سے ایک اس مقام کا پتا لگانا ہے اور کبھی کبھی ایک میٹر سے بھی کم فاصلے میں اس کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔
وہ انٹرنیٹ سے جڑنے والے کسی بھی سمارٹ ہوم ڈیوائس کو ہیک کرنے کے امکان کے بارے میں بات کرتے ہیں جیسے کہ لائٹنگ، سمارٹ ٹی وی وغیرہ۔
لبنان میں پیگاسس؟
عامر تابش کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں نے ’سمارٹ فون میں حفاظتی کمزوری کا پتا لگایا ہے اور یہ خامی ایک ایسی ایپلی کیشن کی شکل میں فروخت کی گئی جو فون کے مالک کے علم کے بغیر فون میں داخل ہو سکتی تھی۔‘
عامر تابش یہاں متنازعہ اسرائیلی پروگرام ’پیگاسس‘ کے بارے میں بات کر رہے ہیں جسے اسرائیلی کمپنی ’این ایس او‘ نے تیار کیا تھا۔
بی بی سی کے سییورٹی نامہ نگار گورڈن کوریرا نے 2021 کی ایک رپورٹ میں کہا کہ ’اسرائیل ہمیشہ سے جدید نگرانی کی صلاحیتوں کے ساتھ ایک فرسٹ کلاس سائبر پاور رہا ہے۔ این ایس او جیسی اس کی کمپنیوں کو انٹیلیجنس کی دنیا کے سابق فوجیوں نے قائم کیا اور یہ کمپنیاں اس ٹیکنالوکی کی تجارت کر رہی ہیں۔‘
این ایس او کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنے سپائی ویئر (جاسوسی والے سافٹ ویئر) کو ’سنگین جرائم میں ملوث مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف‘ استعمال کرنے کے لیے فروخت کرتا ہے۔
کمپنی اور اس کے پیگاسس سافٹ ویئر کا نام 2021 میں بڑے پیمانے پر جاسوسی کے سکینڈل میں آیا تھا۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ میڈیا کی خبروں میں اسرائیلی کمپنی پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنا یہ پروگرام ایسی حکومتوں کو فروخت کرتی ہے جو اسے اپنے مخالفین، کارکنوں اور اہم سیاسی شخصیات کی جاسوسی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
ہاریٹز اخبار نے گزشتہ سال اکتوبر میں ایک تحقیقات شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی سائبر سکیورٹی کمپنیاں غزہ میں حماس کے خلاف جنگی کوششوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ خاص طور پر سات اکتوبر کے حملے میں لاپتہ ہونے والے افراد اور غزہ کی پٹی میں یرغمال اسرائیلی باشندوں کی تلاش میں یہ حصہ لے رہی ہیں۔
کیا سمارٹ فون ہیک ہوسکتا ہے؟
عامر تابش کا کہنا ہے کہ ایپل اور گوگل نے کیمرا اور مائیکروفون کو بند کرنے کے لیے سروسز کو اپنایا ہے اور اس کے باوجود ’سمارٹ فون کو ہیکنگ سے بچانا بہت مشکل ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں ’اگر ہم فون کی سیٹنگز کو تبدیل کر دیں اور آڈیو اور کیمرا سروسز کو غیر فعال کر دیں، تب بھی اس کی روک تھام کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اگر فون ہیک ہو جاتا ہے تو اس شخص کے علم کے بغیر سیٹنگز کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ لوکیشن سسٹم کو غیر فعال کرنا سب سے مشکل کاموں میں سے ایک ہے کیونکہ اگر اسے بند کر دیا جائے تو بھی سروس تکنیکی وجوہات (بشمول ٹرانسمیشن سروس کو بہتر بنانے) کی بنا پر فون کی لوکیشن کے بارے میں معلومات نشر کرتی رہتی ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’اگر فون مکمل طور پر بند ہو جائے تو بھی لوکیشن سروس کسی نہ کسی طریقے سے نشر ہوتی رہتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اسے روکنے کا واحد طریقہ فون کی بیٹری کو نکالنا ہے ’اور یہ عمل سمارٹ فونز میں بہت مشکل ہے۔‘
حزب اللہ کی طرف سے جنگجوؤں، ان کے رشتہ داروں اور عام آبادی سے فون استعمال نہ کرنے کی درخواست کے بارے میں عسکری امور کے ماہر ریٹائرڈ لبنانی بریگیڈیئر جنرل خلیل ہیلو کہتے ہیں ’ جب تک کہ آپریشن پہلے سے طے شدہ نہ ہو جنگجو کے پاس فون کا متبادل ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی کمانڈ سے رابطہ کر سکے۔‘
’شولا کوہن‘ سے ’ایم کامل‘ تک
عسکری ماہر خلیل ہیلو اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ فون نیٹ ورک کو ہیک کرنا اسرائیل کے لیے آسان ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں ’لیکن آپ کو شاید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ اس کی ضرورت نہ رہے۔‘
بریگیڈیئر جنرل ہیلو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیلی انٹیلیجنس اب بھی انسانی تحقیقاتی عنصر پر انحصار کر رہی ہے ’لیکن ہمیں (لبنان میں موجود) ان کی تعداد یا ان کے مؤثر ہونے کا علم نہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے کام کرنے کا طریقہ بدل گیا ہے اور گزشتہ برسوں میں وہ معلومات اکٹھا کرنے کی طرف مائل ہو گئے ہیں۔‘
بریگیڈیئر جنرل خلیل ہیلو کے اندازوں کے مطابق ان کا مشن لوگوں کی رہائش، نقل و حرکت، گاڑیوں کی قسم، دوستوں اور خاندان کے افراد کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ان کے اکاؤنٹس کے ذریعے حاصل ہونے والی دیگر معلومات جمع کرنا ہے۔
مقامی ایجنٹس اور لوگوں کے ذریعے اسرائیل لبنان میں سکیورٹی آپریشن کرنے کے قابل ہوا، جیسے مثال کے طور پر 1973 میں ہونے والا آپریشن ’وردن‘ جس میں بیروت میں تین اہم فلسطینی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسرائیلی موساد نے اس آپریشن کو انجام دینے سے پہلے بیروت میں تین فلسطینی رہنماؤں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کا کام ایلان مے کو سونپا تھا۔
اس تناظر میں ’شولا کوہن‘ کا نام بھی سامنے آیا جو 1948 میں بیروت میں رہتے اور کام کرتے تھے اور لبنانی فوج کے بارے میں اسرائیلی فوج کے لیے معلومات اکٹھا کرنے اور لوگوں کو اسرائیل سمگل کرنے کے لیے مشہور تھے۔
ہیلو ایک دوسرے عنصر کی طرف بات کرتے ہیں جسے وہ قاتلانہ کارروائیوں میں کارآمد سمجھتے ہیں اور یہ ڈرون ہتھیار ہے۔
یہ ’کم مہنگا اور مصنوعی ذہانت اور ہتھیاروں کی تکنیک سے لیس ہے، جو اسے نگرانی، تعاقب، ہدف کی تصدیق اور پھر آپریشن کو منتقی انجام تک پہنچانے کے قابل بناتا ہے۔‘
بہت سے جنوبی لبنان کے باشندے طنزیہ انداز میں ڈرون کو ’ایم کامل‘ کہتے ہیں تاکہ اسے ایک خاتون کے طور پر پیش کیا جا سکے جس پر نگرانی اور اطلاع دینے کا الزام ہے۔
اسرائیل کی آنکھیں اور کان سرحد پر ہیں
حزب اللہ نے ویڈیو فوٹیج شائع کی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اس کے جنگجو لبنان کے ساتھ سرحد پر اسرائیلی بیرکوں کے اندر اور اس کے ارد گرد ٹاورز پر نصب ریڈارز اور آلات کو نشانہ بناتے ہیں۔
عامر تابش کا کہنا ہے کہ سرحد پر موجود ان آلات میں ریڈار ڈیوائسز شامل ہیں جن میں ہائی ریزولوشن کیمرے اور تھرمل امیجنگ فیچر بھی شامل ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان آلات کے ذریعے اسرائیلی فوج سرحد کے قریب آنے والی چیزوں جیسا کہ انسان، جانور، گاڑیاں اور میزائل میں فرق کر سکتی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان میں سننے والے آلات نصب کیے گئے ہیں جو ایک خاص حد تک آوازیں سننے میں مدد کرتے ہیں۔
جنرل ہیلو کا خیال ہے کہ حزب اللہ کے حملوں نے ’ان صلاحیتوں کو غیر فعال کرنے‘ میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ان آلات کے ذریعے سرحد پر آرام سے کام کر رہا تھا، سن رہا تھا اور دیکھ رہا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہ آلات تھرمل ریڈار ہیں جو جانوروں اور انسانوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں اور دور سے آوازیں اٹھاتے ہیں۔
جولائی 2023 کے وسط میں اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ حزب اللہ کے ارکان نے ایک سرحدی دیوار توڑ دی ہے اور اسرائیلی نگرانی کے آلات چوری کر لیے ہیں۔
ویڈیو کلپس لبنان کی جانب سے بنائی گئی، جن میں تین نقاب پوش افراد کو سرحد پر واقع ایک ٹاور سے اسرائیلی ساز و سامان ہٹاتے اور ان کی جگہ حزب اللہ کے جھنڈے لگاتے دکھایا گیا۔
بریگیڈیر جنرل ہیلو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان میں سے کچھ آلات مارکیٹ میں فروخت کیے جاتے ہیں، بشمول ’کیمرے جو 20 کلومیٹر کے فاصلے سے کار کی لائسنس پلیٹ پڑھ سکتے ہیں۔‘
ان کا خیال ہے کہ حزب اللہ نے ’ان حملوں سے اسرائیلیوں کو پریشان کیا لیکن انھوں نے ان (آلات) کی جگہ ڈرون کے ذریعے نگرانی شروع کر دی۔‘
سمارٹ فونز کے علاوہ دیگر فون ہیک ہو سکتے ہیں؟
سمارٹ موبائل فونز کے علاوہ دیگر فون کو ہیک کرنے کے لیے بنیادی نیٹ ورک میں داخل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے فون لائنیں جڑی ہوتی ہیں۔
عامر تابش کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک میں گھسنے سے ’ٹریکنگ آپریشنز میں زیادہ مدد نہیں ملتی۔ کالز پر کان لگانا ممکن ہے۔ آواز کے فنگر پرنٹ کی شناخت میں دشواری ہوتی ہے کیونکہ یہ فون الیکٹرانک لاؤڈ سپیکر استعمال نہیں کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جو بھی اس نیٹ ورک کو ہیک کرے گا وہ ڈیوائس کی لوکیشن کا درست تعین نہیں کر سکے گا کیونکہ یہ کوئی سمارٹ ڈیوائس نہیں اور اس میں کوئی ایسی چپ نہیں جو مقام کا تعین کرے۔
لبنان میں 2009 میں جاری ہونے والی گذشتہ سرکاری رپورٹس اشارہ کرتی تھیں کہ اسرائیل موبائل فون نیٹ ورک میں گھس گیا۔
لبنان نے وزارت خارجہ کے ذریعے اقوام متحدہ کو ایک سے زیادہ شکایات جمع کروائیں (مثال کے طور پر 2009، 2010، 2011 اور 2013 میں) جس میں اس نے اسرائیل پر لبنانی ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں جاسوسی یا گھسنے کا الزام لگایا تھا۔
2010 کے موسم گرما میں لبنانی حکام نے ’الفا‘ کمیونیکیشن کمپنی کے لوگوں کی گرفتاری کا اعلان کیا۔ ان پر یہ الزامات ہیں کہ وہ اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
بی بی سی عربی کے ساتھ ایک کال میں لبنانی وزیر خارجہ کے دفتر کے ڈائریکٹر ولید حیدر نے کہا کہ ریاست عام طور پر یہ شکایات اقوام متحدہ میں جمع کراتی ہے تاکہ لبنانی خودمختاری کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی جا سکے۔
اقوام متحدہ عام طور پر اس بات کی تصدیق کے لیے ایک بیان جاری کرتی ہے کہ اسے لبنان سے شکایت موصول ہوئی ہے۔
2010 اور 2012 میں لبنانی فوج نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے لبنانی سرزمین پر ایک جاسوسی آلے کو دور سے اڑا دیا۔
مشکوک رابطے
اے ایف پی نے 19 جنوری کو ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ جنوبی لبنان کے رہائشیوں کو ’مشتبہ رابطوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں جن میں بمباری کی کارروائیوں کی توقع کی جا رہی تھی۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ کچھ رہائشیوں سے ایسے روابط کیے گئے جن میں رابطہ کرنے والے سرکاری یا شماریاتی اداروں سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کر رہے تھے۔
اے ایف پی نے اسرائیلی فوج کے ترجمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ان روابط کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا وہ اس بارے میں جواب نہیں دے سکتے۔‘
حزب اللہ کی طرف سے ’دھمکی آمیز پیغامات‘
سرحد کے دوسری جانب ’اسرائیل 24‘ نیوز نیٹ ورک نے اطلاع دی کہ شمالی اسرائیل کے رہائشیوں کو حزب اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے ہیں۔
عربی زبان میں چینل کی ویب سائٹ نے بتایا کہ یہ پیغامات واٹس ایپ کے ذریعے یورپی فون نمبروں سے آئے تھے اور اس میں حزب اللہ کے پیغام کے ساتھ ایک پروپیگنڈا ویڈیو بھی شامل تھی جس میں انھیں جنوب کے شہروں کے لیے روانہ ہونے کا کہا گیا تھا۔
اسرائیلی چینل کی رپورٹ کے مطابق اس پیغام میں کہا گیا ’ہمارے میزائل آپ کی طرف ہیں، آپ کے پاس ہفتے کے آخر تک کا وقت ہے، آپ زندہ نہیں رہیں گے۔ ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں، جنوب کے شہروں کی طرف بھاگ جائیں۔‘
جولائی 2017 میں ٹائمز آف اسرائیل نے اسرائیلی فوج کے حوالے سے کہا کہ حزب اللہ ایک ماحولیاتی کمپنی کو نگرانی کے لیے استعمال کر رہا تھا۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے 30 افراد کی تصاویر شائع کیں جن کا کہنا تھا کہ وہ حزب اللہ کے ارکان تھے، جو جنوبی لبنان میں ماحولیاتی سوسائٹی میں اکثر آتے ہیں اور علاقے میں پرندوں کی تصویر کشی کی آڑ میں اسرائیل کی جانب کی تصاویریں لیتے ہیں۔
حزب اللہ کی صلاحیتوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ماہر عامر تابش کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کی شمال کے رہائشیوں کے فون پر پیغامات بھیجنے کی صلاحیت کو ’تکنیکی کامیابی یا پیشرفت‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس بات کا امکان ہے کہ حزب اللہ اسرائیلی باشندوں کے فون میں موجود کسی خامی کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی یا یہ کہ وہ ان فون نمبرز کو کسی خاص طریقے سے حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان پیغامات کو بھیجنے کا عمل ایک تنگ جغرافیائی دائرہ کار پر ہوا، جو لبنان کی سرحد کے قریب ایک علاقے تک محدود تھا۔
تابش کا خیال ہے کہ ’حزب اللہ کے پاس الیکٹرانک جنگ لڑنے کی صلاحیتیں ہیں، جس کا اس نے پوری طرح سے مظاہرہ نہیں کیا۔ کیا وہ اسرائیلی صلاحیتوں سے حیران ہوئے اور اس لیے انھوں نے ابھی تک (ان صلاحیتوں کو) استعمال نہیں کیا؟‘
ان کا خیال ہے کہ حزب اللہ آج ’کنفیوژن‘ کا شکار ہے جس نے اسے اپنے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کے ذریعے فون اور کیمرے استعمال نہ کرنے کی ہدایت جاری کرنے پر اکسایا۔
ان کی رائے میں، اسرائیلی فوج نے ’جنوب میں مواصلاتی نیٹ ورکس پر بمباری نہیں کی کیونکہ وہ ان سے فائدہ اٹھاتی ہے۔‘
جو جولائی 2006 کی جنگ میں ہوا تھا یہ اس کے برعکس ہے۔ تب اسرائیل نے لبنان میں بہت سے مواصلاتی نیٹ ورکس اور سٹیشنوں پر بمباری کی تھی۔
تابش نے مزید کہا ’کیا حزب اللہ کو معلوم ہے کہ اسرائیلیوں کو ان نیٹ ورکس سے کس طرح فائدہ ہوتا ہے؟ یہ ابھی واضح نہیں۔‘