اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے ایف پی) چینی کنٹریکٹرز نے پاکستان میں دو بڑے ڈیم منصوبوں پر تعمیری کام روک دیا ہے۔ یہ اعلان ایک ڈیم کی تعمیر میں شامل کارکنوں پر حالیہ خودکش بم حملے میں پانچ چینی انجینیئرز اور ایک پاکستانی ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد کیا گیا ہے۔
جمعہ انتیس مارچ کو پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا سے موصولہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں دو بڑے ڈیم منصوبوں کی تعمیر روک دینے کا اعلان منگل چھبیس مارچ کو پاکستان میں تعمیراتی کام کرنے والے چینی انجینیئرز کی ایک گاڑی پر ہونے والے ہلاکت خیر حملے کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔ جمعے کو پاکستانی اہلکاروں نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ چین نے اس ہلاکت خیز حملے کے بعد ڈیموں کی تعمیر کے دو منصوبوں پر کام روک دیا ہے۔
چینی کمپنیوں کا مطالبہ
ایک صوبائی اہلکار نے بتایا کہ چینی کمپنیوں نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تعمیراتی سائٹس کو جہاں قریب ایک ہزار دو سو پچیس چینی شہری کام کرتے ہیں، دوبارہ کھولنے سے پہلے نئے سکیورٹی پلان پیش کریں۔ پاکستان میں چینی کارکنوں کی سلامتی دونوں ممالک کے لیے بڑی تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے۔
پاکستان میں عسکریت پسندوں کی طرف سے ‘بیرونی اثر و رسوخ کی مخالفت‘ کا اظہار کرتے ہوئے چینی شہریوں کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی گزشتہ منگل کو چینی کارکنوں پر ہونے والا وہ حملہ تھا، جس میں ایک خودکش بمبار نے ان چینی انجینیئروں کو نشانہ بناتے ہوئے ڈیم سائٹس میں سے ایک کے قریب ایک پہاڑی سڑک پر خود کو ان کی گاڑی سے ٹکرا دیا تھا۔
کن دو چینی کمپنیوں نے کام روکا؟
صوبے خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ بدھ کے روز چائنہ گیزوبا گروپ کمپنی نے صوبے میں داسو ڈیم اور پاور چائنہ نے دیامیر بھاشا ڈیم پر کام روک دیا۔ اس حکومتی اہلکار نے کہا، ”انہوں نے حکومت سے نئے سکیورٹی پلان کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘
اس اہلکار کا مزید کہنا تھا، ”تقریباً 750 چینی انجینیئر داسو ڈیم پروجیکٹ سے منسلک ہیں جبکہ 500 دیامیر بھاشا ڈیم پر کام کر رہے ہیں۔‘‘ صوبائی محکمہ داخلہ کے اس سینیئر اہلکار کے مطابق چینی انجینیئروں کی نقل و حرکت ان کمپاؤنڈز تک محدود کر دی گئی ہے جہاں وہ رہتے ہیں، متعلقہ سائٹس کے قریب ہی۔ چین نے اس پیش رفت پر اب کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن اسی ہفتے بار بار پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے ہاں چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
چین، پاکستان کا دیرینہ ساتھی
بیجنگ اسلام آباد کا سب سے قریبی علاقائی اتحادی ہے اور اکثر مالی مشکلات کے شکار اپنے پڑوسی کو مالی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ چین نے اپنی بیلٹ اینڈ روڈ انویسٹمنٹ اسکیم کے تناظر میں دنیا بھر میں دو ٹریلین ڈالر سے زیادہ کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت پاکستان میں بھی انفراسٹرکچر منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں کچھ حلقے طویل عرصے سے یہ شکایت بھی کر رہے ہیں کہ انہیں ان پروجیکٹس کے باعث پیدا ہونے والے ملازمتوں کے مواقع یا آمدنی میں سے مناسب حصہ نہیں مل رہا۔
منگل کے روز کیے گئے حملے نے اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کی سرگرمیوں میں بھی ہلچل مچا دی تھی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور خارجہ اور داخلہ امور کے وزراء نے بھی یکے بعد دیگرے ہلاک ہونے والے چینی شہریوں اور ایک پاکستانی ڈرائیور کے لواحقین سے تعزیت کی تھی۔
چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں دونوں ممالک کی دوستی کو ”آہنی‘‘ قرار دیا ہے لیکن پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ”چینی شہریوں، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔‘‘
چینی کارکنوں پر ہونے والے گزشتہ حملے
گزشتہ منگل کے روز کیا گیا حملہ اس وقت ہوا جب عسکریت پسندوں نے ملک کے جنوب مغرب میں واقع گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ، جسے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے، کے دفاتر پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی۔ 2019 ء میں مسلح افراد نے صوبہ بلوچستان میں ایک لگژری ہوٹل پر دھاوا بول دیا تھا، جو گوادر میں چینی حمایت یافتہ گہرے پانی کی بندرگاہ سے بحیرہ عرب تک اسٹریٹیجک رسائی کا ایک اہم ترین مقام ہے۔ اس حملے میں بھی کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے قبل جون 2020 ء میں بھی بلوچ علیحدگی پسندوں نے ملک کے تجارتی مرکز کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو بھی نشانہ بنایا تھا، جو جزوی طور پر چینی کمپنیوں کی ملکیت ہے۔