لندن (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) برطانوی دارا لحکومت میں قائم فارسی ٹیلی ویژن کے میزبان پوریا زیراتیکو کو ان کے گھر کے باہر چاقو کے وار کر کے زخمی کیا گیا۔
برطانوی دارالحکومت میں قائم ایک فارسی ٹی سی چینل کے میزبان پوریا زیراتیکو کو ان کے گھر کے باہر چاقو کے وار کر کے زخمی کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔
پوریا زراعتی، مجری شبکه ایران اینترنشنال که روز جمعه در لندن با حمله افرادی با چاقو مجروح و به بیمارستان منتقل شد، نخستین تصویر از خود در بیمارستان را در حساب شخصیاش در شبکه ایکس با نشان دادن علامت پیروزی با دستانش منتشر کرد.https://t.co/5YvAgxX4zr pic.twitter.com/B8EExNmtL7
— ايران اينترنشنال (@IranIntl) March 30, 2024
پولیس حکام کے مطابق لندن میں قائم ایک فارسی چینل ایران انٹرنیشنل کے ایک پریزینٹر پوریا زیراتی کو جمعہ کی سہ پہر چاقو سے وار کر کے زخمی کر دیا گیا۔ تاہم ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔ برطانوی انسداد دہشت گردی کی پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ ایران کی سخت گیر مذہبی حکومت کو طویل عرصے سے اس ٹیلی ویژن چینل کی جانب سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد فارسی زبان کے اس سیٹلائٹ نیوز چینل کو لاحق خطرات پر تشویش بڑھ رہی ہے۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس (میٹس) کے مطابق زیراتی پر حملہ برطانیہ میں مقیم ایرانی صحافیوں کو دی جانے والی حالیہ دھمکیوں کی ایک عملی کڑی ہے۔ اس حملے کے محرکات کے متعلق جاننے کے لیے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
میٹس کے انسداد دہشت گردی کی کمانڈ کے سربراہ ڈومینک مرفی نے کہا، ”ہم اس واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں۔ ہماری ترجیح اس وقت یہ ہے کہ ہم حملہ آوروں کا پتا لگا کر انہیں گرفتار کریں۔‘‘
ایران انٹرنیشنل کے ترجمان ایڈم بیلی کے مطابق یہ ایک انتہائی خوفزدہ کر دینے والا واقع ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ماضی میں بھی اس ادارے سے منسلک صحافیوں کو قتل اور اغوا کی دھمکیاں موصول ہوتی رہی ہیں۔
انہوں نے کہا، “یہ ایک چونکا دینے والا واقع تھا۔‘‘ پولیس کے مطابق برطانیہ میں اس سے قبل قتل اور اغوا کی ایسی کئی سازشیں ناکام بنائی جا چکی ہیں جن میں ایسے لوگ ہدف ہوتے جنہیں ایرانی حکومت اپنا دشمن تصور کرتی تھی۔ پولیس کی جانب سے مستقبل میں ایسے افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا۔
گزشتہ سال کے آغاز پر ایران انٹرنیشنل نے لندن میں اپنا آپریشن عارضی طور پر بند کر دیا تھا جسے چند ماہ بعد دوبارہ بحال کیا گیا۔ ادارے کا کہنا تھا کہ انہیں ایران کی جانب سے خطرات کا سامنا ہے۔
آسٹریا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو گزشتہ سال اس ادارے کی جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور چھ ماہ کی قید بھی سنائی گئی تھی۔
ہاؤس آف کامنز کی خارجہ امور کی کمیٹی کی سربراہ ایلیسیا کیرنز نے تشویش کا اظہار کیا کہ برطانیہ اب بھی ایرانی حکومت کے مخالفین کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا، ”اگرچہ اس حملے سے متعلق مکمل معلومات ابھی ہمارے پاس موجود نہیں ہیں تاہم ایران ان بہادر لوگوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے جو ان کی سخت گیر حکومت کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ ہم اور ہمارے حمایتی ان لوگوں کا تحفظ یقینی بنائیں گے جو ہمارے ملکوں میں رہ رہے ہیں۔‘‘
رواں ماہ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے ایران کے خلاف پراپیگنڈہ کے الزامات پر بی بی سی کی فارسی سروس کے 10 صحافیوں کو ایک ایرانی عدالت کی طرف سے ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائے جانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ‘مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیا تھا۔
کیمرون نے ہاؤس آف لارڈز میں کہا، ”جب میں آخری بار ایرانی وزیر خارجہ سے ملا تو میں نے ان کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا کہ ایران برطانیہ میں مقیم آزادانہ حقائق کو سامنے رکھنے والے صحافیوں کو قتل کرنے کے لیے پیشہ ور مجرموں کو رقوم ادا کر رہا ہے۔‘‘