غزہ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی ڈبلیو/رائٹرز) اسرائیلی فورسز نے غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا کمپلیکس سے دو ہفتے تک جاری رہنے والے آپریشن کے بعد پیر کے روز فوجی انخلا کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہاں حماس کے دو سو جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا۔
پیر یکم اپریل کو اسرائیلی فوج نے الشفا ہسپتال میں دو ہفتوں سے جاری اپنے فوجی آپریشن کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے اسے ایک کامیاب آپریشن قرار دیا اور ساتھ وہاں سے اپنے مسلح دستوں کے انخلا کا اعلان بھی کر دیا۔
الشفا ہسپتال کا منظر
غزہ سٹی کے الشفا ہسپتال سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے وقت وہاں جلی ہوئی عمارات اور کمپلیکس میں جگہ جگہ بکھری لاشیں نظر آرہی تھیں۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے غزہ سٹی کے الشفا ہسپتال کے اندر چھپے ہوئے فلسطینی عسکریت پسندوں کا مقابلہ کیا، کم از کم 200 جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا اور ساتھ ہی اسلحے، دھماکہ خیز مواد اور نقدی کا بڑا ذخیرہ بھی قبضے میں لے لیا۔
رائٹرز اور اے پی نے غزہ میں حماس کے میڈیا آفس کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 400 ہے جن میں ایک خاتون ڈاکٹر، اس کا بیٹا، اور ایک اور ڈاکٹر بھی شامل ہے۔ جبکہ اسپتال غیر فعال ہو گیا ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز دو ہفتوں کی کارروائیوں کے بعد واپس جاتے ہوئے اپنے پیچھے تباہ شدہ عمارتیں اور مٹی میں اٹی ہوئی لاشیں چھوڑ گئی ہے۔
ادھر حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں اور آتش زدگی کے بعد ”کمپلیکس اور اس کے ارد گرد کی عمارات میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔‘‘ الشفا میڈیکل کمپلیکس کے اندر اور اس کے آس پاس سے درجنوں لاشیں برآمد ہوئی ہیں، جن میں سے کچھ گل سڑ چکی تھیں۔ مزید یہ کہ یہ ہسپتال اب ”مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔‘‘
اس تباہ شدہ میڈیکل کمپلیکس کے متعدد ڈاکٹروں اور عام شہریوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہاں سے کم از کم 20 ایسی لاشیں ملی ہیں، جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بظاہر ”فوجی گاڑیاں انہیں روندتے ہوئے‘‘ نکلی ہیں۔ ان میں سے کئی لاشیں کمپلیکس کے مغربی دروازے کے قریب پائی گئیں، جسے اسرائیلی فوج نے پیر کے روز اس کمپلیکس سے روانگی کے لیے استعمال کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج نے ان دعووں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
خان یونس کی صورت حال
گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے طرف سے اسرائیل پر کیے گئے بڑے دہشت گردانہ حملے کے فوراﹰ بعد شروع ہونے والی جنگ میں غزہ کے دیگر ہسپتالوں کے ارد گرد بھی تقریباً چھ ماہ سے مسلح جھڑپیں زوروں پر ہیں۔ اس جنگ میں غزہ کی محاصرہ شدہ ساحلی پٹی کا بڑا حصہ تباہ ہو چکا ہے۔ اسی دوران حماس کے پریس آفس نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ پٹی کے شہر خان یونس میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر 20 سے زیادہ مکانات کو دھماکے سے اڑا دیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ناصر اور الامل ہسپتالوں کے ارد گرد لڑائی جاری ہے۔
امریکہ، قطر اور مصر کے ثالث جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر زور دے رہے ہیں لیکن حماس کے عہدیدار اسامہ حمدان نے بتایا، ”مذاکرات کے کسی نئے دور کے بارے میں ابھی تک کوئی بات نہیں ہوئی۔‘‘
مزید لاکھوں انسان قحط کے دہانے پر
دریں اثنا اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور انسانی امدادی گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے 2.4 ملین افراد میں سے بہت سے لوگ قحط کے دہانے پر ہیں۔ عطیہ دینے والے ممالک نے وقتاً فوقتاً ٹرکوں میں کھانا پہنچایا اور فضا سے امدادی سامان بھی گرایا ہے۔
ایک ویب سائٹ Vesselfinder.com کے مطابق، قبرص سے روانگی کے چند دن بعد، بحیرہ روم کے راستے امدادی سامان لے جانے والا دوسرا جہاز آج پیر کے روز غزہ کے ساحلی علاقے کے قریب پہنچ چکا تھا۔
نیتن یاہو کا دورہ واشنگٹن منسوخ
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق کل اتوار 31 مارچ کو نیتن یاہو کا ہرنیا کا ایک کامیاب آپریشن ہوا۔ ان کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”وزیر اعظم اچھی حالت میں ہیں اور صحت یاب ہو رہے ہیں۔‘‘ دریں اثنا بینجمن نیتن یاہو نے ایک بار پھر حماس کو تباہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، غزہ کے جنوبی شہر رفح میں موجود اس کے عسکریت پسندوں سمیت۔
ایک اسرائیلی ذریعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ نیتن یاہو کی جانب سے رفح میں زمینی فوجی آپریشن سے قبل بات چیت کے لیے اسرائیلی حکومت کے ایک وفد کا دورہ واشنگٹن منسوخ کر دیا گیا۔ اس منسوخی کے بعد آن لائن ویڈیو کانفرنس کی صورت میں ایک ملاقات آج پیر کے روز کے لیے طے کی گئی ہے۔
اسرائیل حماس جنگ 7 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی، جب حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کر کے اسرائیل کے بقول 1200 افراد کو ہلاک اور تقریباً 250 یرغمال بنا لیا، جن میں سے 100 کے لگ بھگ یرغمال نومبر کی عارضی جنگ بندی کے دوران رہا کر دیے گئے تھے جب کہ 130 اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔
غزہ میں حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جوابی مہم میں اب تک 32700 ے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں ۔ جب کہ 70 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔