سلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اےایف پی) پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں چینی انجینیئروں پر حالیہ خودکش حملے کےبعد پاور چائنہ اور چائنہ گیزوبا نامی کمپنیوں نے دو ڈیم منصوبوں پر کام معطل کر دیا تھا۔
پاکستانی وزیر اطلاعات نے ہفتہ چھ اپریل کے روز بتایا کہ گزشتہ ماہ ایک بڑی ڈیم سائٹ پر کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں پر کیے گئے خودکش حملے کے نتیجے میں پانچ چینی انجینیئروں کی ہلاکت کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے کم از کم پانچ اعلیٰ پولیس اہلکاروں کو اپنے فرائض میں غفلت برتنے پر سزائیں دیے جانے کا حکم دیا ہے۔
شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں کیے گئے اس حملے نے پاور چائنہ اور چائنہ گیزوبا نامی کمپنیوں کو دو ڈیم منصوبوں پر اپنا کام معطل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس حملے میں پانچ چینی ورکرز اور ان کا پاکستانی ڈرائیور مارے گئے تھے۔ بم حملے کے دوران ان کی گاڑی بے قابو ہو کر ایک گہری کھائی میں جا گری تھی۔
داسو اور دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے مقامات پر سینکڑوں چینی شہری کام کر رہے ہیں۔ ان دونوں ڈیموں کی تعمیر کے مقامات ایک دوسرے سے قریب سو کلومیٹر دور ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے مقرر کردہ تفتیشی کمیٹی نے داسو ڈیم پراجیکٹ کے ایک علاقائی عہدیدار، تین ضلعی عہدیداروں اور ڈائریکٹر آف سکیورٹی کو ان کی طرف سے فرائض کی ادائیگی میں ”غفلت‘‘ کا مرتکب پایا۔
ان میں آر پی او ہزارہ ڈویژن، ڈی پی او اپر کوہستان ڈسٹرکٹ، ڈی پی او لوئر کوہستان ڈسٹرکٹ، ڈائریکٹر سیکیورٹی داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور کمانڈنٹ اسپیشل سیکیورٹی یونٹ خیبرپختونخوا کے خلاف 15 دن کے اندر انضباطی کارروائی ہوگی۔
تارڑ نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا، ”وزیر اعظم نے ان اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کی سزا کیا ہو گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا ، ”وزیر اعظم خود چینی باشندوں کی سکیورٹی کے عمل کی نگرانی کریں گے۔ جن اہلکاروں نے غفلت کا مظاہرہ کیا، انہیں سزائیں دے کر مثال قائم کی جائے گی۔‘‘
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ چینی شہریوں کے حوالے سے سکیورٹی کے معاملات کو ”انتہائی سنجیدگی سے لیا جائے گا اور کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔‘‘ دیامر بھاشا ڈیم کی سائٹ پر پاور چائنہ نامی کمپنی کی سرگرمیاں اب بحال ہو چکی ہیں جبکہ داسو میں چائنہ گیزوبا گروپ کی جانب سے تعمیراتی کام ابھی تک بند ہے۔ پاکستانی پولیس نے اس بم حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں چند افغان شہریوں سمیت اب تک بارہ سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے۔
بیجنگ اسلام آباد کا سب سے قریبی علاقائی اتحادی ہے، جو مشکل حالات میں اپنے پڑوسی کی مدد کے لیے اکثر مالی امداد کی پیشکش کرتا ہے اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر دو ٹریلین ڈالر سے زیادہ خرچ کر رہا ہے۔
تاہم پاکستان میں تعمیراتی شعبے سے منسلک کئی کارکنوں کو طویل عرصے سے یہ شکایت بھی رہی ہے کہ انہیں ملک میں چینی منصوبوں میں ملازمتوں یا ان سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے مناسب حصہ نہیں مل رہا۔
پاکستان میں چینی کارکنوں کی سکیورٹی دونوں ممالک کے لیے ہی تشویش کا باعث بن ہوئی ہے کیونکہ چینی شہریوں کو عسکریت پسند اکثر اپنے مسلح حملوں کا نشانہ بناتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے یہ حملہ اس وقت ہوا جب عسکریت پسندوں نے جنوب مغرب میں واقع گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ کے دفاتر پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس بندرگاہ کو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔