نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کسی غیر ملکی شہری کی باقیات کو بھارت میں دفن کرنے کا مطالبہ کرنے کا کسی کو آئینی حق نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں مدفون ایک پاکستانی صوفی نے اپنی جائے پیدائش الہ آباد میں دفن کرنے کی وصیت کی تھی۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی صدارت والی تین رکنی بنچ نے گزشتہ دنوں اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ کوئی بھی مرد یا عورت، جو بھارت کا شہری نہ ہو، اس کی میت کو تدفین کے لیے بھارت لانے کا مطالبہ کرنے کا کسی کو آئینی حق حاصل نہیں ہے۔
عدالت عظمیٰ نے اسی کے ساتھ بنگلہ دیش میں فی الحال مدفون ایک پاکستانی شہری صوفی شاہ محمد عبدالمقتدر شاہ مسعود احمد کی وصیت کے مطابق ان کی باقیات کو ان کی جائے پیدائش اترپردیش صوبے کے شہر پریاگ راج (سابقہ الہ آباد) میں دفن کرنے کے متعلق دائر درخواست مسترد کردی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا، “اس طرح کی درخواست پر غور کرنے کی راہ میں بہت ساری رکاوٹیں حائل ہیں۔ اس شخص نے اعتراف کیا تھا کہ وہ پاکستانی شہری ہے۔ ایسا کوئی آئینی حق نہیں ہے جس کی بنیاد پر درخواست دہندہ یہ دعویٰ کرسکے کہ متوفی کی باقیات کو ڈھاکہ سے، جہاں وہ مدفون ہے، بھارت لانے کی اجازت دی جائے۔اس کے علاوہ قبرکشائی جیسے دیگر مسائل بھی ہیں۔ ہمارے خیال میں اصولی طور پر ایسا کرنا نہ تو مناسب ہوگا اور نہ ہی قانونی، کہ عدالت یہ حکم دے کہ ایک ایسے شخص کو جس نے باضابطہ اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک غیر ملکی شہری ہے، اس کی آخری رسومات کے لیے بھارت لایا جائے۔”
کیا ہے معاملہ؟
درخواست دہندہ کی وکیل نے عدالت سے کہا کہ شاہ محمدعبدالمقتدر شاہ مسعود احمد پریاگ راج میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن سن 1992 میں پاکستان ہجرت کرگئے، جہاں انہوں نے پاکستانی شہریت بھی حاصل کرلی۔ انہیں فروری 2008 میں پریاگ راج کے درگاہ حضرت ملاّ سید محمد شاہ کا سجادہ نشین منتخب کیا گیا۔ انہوں نے 8 مارچ 2021 تک اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور انتقال کے بعد درگاہ میں ہی دفن کرنے کی وصیت کی۔
شاہ محمد عبدالمقتدر شاہ مسعود احمد اپنے مریدین سے ملاقات کے لیے بنگلہ دیش گئے تھے جہاں 21جنوری 2022 کو ڈھاکہ میں ان کا انتقال ہو گیا اور وہیں انہیں دفن کردیا گیا۔ درخواست دہندہ کا کہنا ہے کہ وہاں ان کی قبر بے توجہی کا شکار ہے۔
درخواست دہندہ کی وکیل کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی حکومت کو کوئی اعتراض نہ ہو اور اگر بنگلہ دیش کی حکومت قبر کشائی کے بعد میت کو لانے کی اجازت دے دیتی ہے تو بھارتی حکومت کو دوبارہ تدفین کے لیے ان کی میت کو بھارت لانے کی اجازت دے دینی چاہیے۔
درخواست دہندہ کا کہنا تھا کہ وہ بھارت کی مرکزی حکومت کو گزشتہ دو برسوں سے اس سلسلے میں خطوط لکھ رہے ہیں لیکن آج تک کوئی بھی جواب نہیں موصول ہوا۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ اس سلسلے میں حکام کو جواب دینے کا حکم دے۔
بھارتی عدالت عظمیٰ نے کہا، “اس کیس میں کوئی وزن نہیں ہے۔ آخر کوئی شخص جو بھارت کا شہری نہ ہو، اس کے اہل خانہ یا عقیدت مندوں کا گروپ یہ کیسے کہہ سکتا ہے ہم مذکورہ شخص کو یہاں دفن کرنا چاہتے ہیں؟ جب کہ وہ شخص ایک غیر ملکی شہری ہے۔”
چیف جسٹس چندرچوڑ کا کہنا تھا کہ اگر مذکورہ شخص این آر آئی (غیر مقیم بھارتی) ہوتا تو عدالت شاید اس پر غور بھی کرتی۔