ریاض (نیوز ڈیسک) برطانوی اخبار اخبار دی گارڈین نے دعویٰ کیا ہے کہ ’سعودی عرب میں سیاسی قیدی کو جیل میں غذائی کمی، جلانا، زخم دینا سمیت جسمانی تشدد کا سامنا ہے‘۔
اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ’قیدیوں کے طبی معائنے پر مشتمل رپورٹ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو پیش کی جائے گی جس میں سفارشات بھی شامل ہیں‘۔
اس حوالے سے اخبار نے کہا کہ ’فرمانروا شاہ سلمان کی جانب سے تمام قیدیوں خصوصاً جسمانی تشدد کے باعث زیادہ متاثرہ قیدیوں کی فوری رہائی کا حکم صادر ہو سکتا ہے‘۔
ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے برطانوی اخبار دی گارڈین نے بتایا کہ ’فرمانروا شاہ سلمان کے حکم پر ہی ایک کمیشن کو 60 سے زائد سیاسی قیدیوں کی طبی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت ملی تھی۔
مزید کہا گیا کہ شاہ سلمان نے اپنے صاحبزادے ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد 200 سے زائد مرد اور خواتین کو گرفتار کرنے کے حکم نامے کا جائزہ لینے کا ہدایت کردی۔
باخبرذرائع کے مطابق سعودی کی رائل کورٹ نے ولی عہد بن سلمان کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے قیدیوں کی صحت سے متعلق مفصل رپورٹ تیار کی۔
دی گارڈین کے مطابق قیدیوں کا طبی معائنہ رواں برس جنوری میں ہوا اور طبی رپورٹ میں فرمانروا کے لیے تین اہم سفارشات کو بھی شامل کیا گیا جس میں آگے کا لائحہ عمل بتایا گیا۔
اخبار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ادارے نے طبی رپورٹ دیکھی ہے جس میں سے ایک قیدی کے بیان سے واضح ہوتا کہ متعدد قیدی سنگین نوعیت کے طبی مسائل سے دوچار ہیں۔
اس سے قبل ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے بیٹے اور ملک کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مابین یمن میں جنگ سمیت دیگر اہم مسائل پر ’شدید اختلافات‘ جنم لے چکے ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’دونوں اہم شخصیات کے درمیان اختلافات کی فضا ترکی میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد پیدا ہوئی‘۔
خیال رہے کہ گزشتہ دو برس سے متعدد رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں جس میں سعودی عرب میں ماورائے قانون رضاکاروں کو بھی گرفتار کیا گیا۔
13 مارچ کو سعودی عرب میں حکام نے ایک برس سے زیرحراست 10 خواتین سماجی رضاکاروں کو پہلی مرتبہ عدالت میں پیش کیا تھا۔
کرمنل کورٹ میں پیش کی گئی 10 سماجی رضاکاروں میں لجین الھذلول، خاتون الفسی، عزیزہ الیوسف اور ایمن النفجان بھی شامل تھیں۔
اس حوالے سے عدالتی صدر ابراہیم السیریٰ نے بتایا کہ ’زیرحراست تمام ملزمان نے پہلی مرتبہ اپنے خلاف عائد کردہ الزامات سنے‘۔
سماجی رضاروں کے اہلخانہ کو کورٹ میں داخلے کی اجازت دی گئی تاہم رپورٹرز اور مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے سفیروں پر پابندی تھی۔