برلن (ڈیلی اردو/وی او اے/اے پی) جرمنی اب غیر قانونی تارکین وطن کے لیے پرکشش نہیں رہے گا۔ جرمنی کی پارلیمنٹ نے جمعے کے روز ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت پناہ کی درخواست دینے والے تارکین وطن کی نقد رقم تک رسائی محدود ہو جائے گی اور وہ اپنے ملک رقم نہیں بھیج سکیں گے۔
اس قانون کے تحت سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو اپیل کا فیصلہ ہونے تک جرمنی میں رہنے اور محدود فوائد کے حصول تک رسائی کے لیے حکومت ایک کارڈ جاری کرے گی۔ اس کارڈ پر وہ مقررہ حد کے اندر رہتے ہوئے دکانوں سے اپنی بنیادی ضرورت کی چیزیں خرید سکیں گے اور اپنے بلوں اور دیگر سروسز کے معاوضے کی ادائیگی کر سکیں گے۔
اس کارڈ سے وہ محدود کیش بھی نکلوا سکیں گے لیکن وہ اپنے آبائی ملک میں، اپنے خاندان اور عزیزوں کو رقم نہیں بھیج سکیں گے۔
عہدے داروں کا خیال ہے جرمنی میں داخل ہونے والے زیادہ تر تارکین وطن کا مقصد اپنے خاندانوں کو رقوم بھیجنا ہوتا ہے۔اس پابندی سے ان غیر قانونی تارکن وطن کی حوصلہ شکنی ہو گی جو اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے مختلف راستوں سے جرمنی کا رخ کرتے ہیں۔
ورپی بلاک میں جرمنی کا شمار صف اول کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہوتا ہے۔ وہاں روزگار کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔ کم شرح پیدائش اور معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر جرمنی اپنی صنعتوں کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے ہر سال بیرونی ملکوں سے آنے والے کارکنوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
جرمنی کی آبادی 8 کروڑ سے زیادہ ہے جب کہ پیدائش کی شرح ایک ہزار افراد کے مقابلے میں 9 کے لگ بھگ بچے سالانہ ہے ۔ اس طرح یہ سطح ایک فی صد کے دسویں حصے سے بھی کم ہے۔
جرمنی میں 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کل آبادی کا تقریباً 28 فی صد حصہ تھے۔ 65 سال کو جرمنی میں ریٹائرمنٹ کی عمر سمجھا جاتا ہے۔
پیدائش کی کم شرح اور عمر رسیدہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث جرمنی میں ہر سال ایسے افراد کی تعداد گھٹ رہی ہے جو کام کرنے کی عمر میں ہوتے ہیں۔ روزگار کی منڈی میں اس بڑھتے ہوئے خلا کو بھرنے کے لیے جرمنی ہر سال بڑی تعداد میں ہنرمند کارکنوں کو ورک ویزے جاری کرتا ہے۔
جرمنی کی یہ تصویر ترقی پذیر اور غریب ملکوں کے ان نوجوانوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے جو روزگار کی تلاش میں ترقی یافتہ ملکوں کا سفر کرتے ہیں۔ ان میں کشتیوں اور دیگر پر خطر راستوں سے غیرقانونی طور پر یورپ جانے والے لوگ بھی شامل ہیں، جن کی ایک بڑی تعداد سمندر میں ڈوب کر اجنبی راستوں میں بھٹک کر مر کھپ جاتی ہے۔
یورپ پہنچنے کے بعد ان میں سے بہت سے لوگ کسی نہ کسی طریقے سے جرمنی پہنچ جاتے ہیں اور چوری چھپے کام کر کے اپنی گزر بسر بھی کرتے ہیں اور اپنے خاندان والوں کو بھی رقم بھیجتے ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ پناہ کی درخواستیں دائر کر دیتے ہیں جس کے بعد انہیں حکومت کی طرف سے کچھ سہولتیں مل جاتی ہیں۔
پچھلے سال جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دینے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور یہ تعداد ساڑھے تین لاکھ سے بڑھ گئی جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ تھی۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق یوکرین، شام، ترکی اور افغانستان سے تھا۔
تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نہ صرف روزگار ،رہائش اور صحت کے وسائل پر بوجھ پڑا ہے بلکہ سیکیورٹی سمیت کئی اور طرح کے مسائل بھی پیدا ہو گئے ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے جرمنی کی حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے تارکین وطن کی حوصلہ شکنی ہو اور ان کا ملک غیر ملکیوں کے لیے پرکشش نہ رہے۔
جمعے کے روز جرمن پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا قانون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز اور جرمنی کی 16 ریاستوں کے گورنروں نے نومبر سے تارکین وطن سے متعلق نئے نظام پر عمل درآمد کرانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ بل پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے بھاری اکثریت سے منظور کیا ہے۔
جنوری میں جرمنی کی پارلیمنٹ کے ایک اور قانون کی بھی منظوری دی تھی جس سے ان تارکین وطن کو ملک بدر کرنا آسان ہو گیا ہے جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں نامنظور ہو جاتی ہیں۔
اس قانون کے تحت حکام کو یہ فیصلہ کرنے کا بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یہ طے کر سکیں کہ ملک بدر ہونے والے افراد کتنی رقم اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔