لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) مبینہ طور پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے ایک فاسفورس حملے کا شکار بننے والے لبنانی شخص نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’یہ سفید دھوئیں کی طرح ہوا میں اُڑتا ہے، لیکن جیسے ہی یہ زمین سے ٹکراتا ہے کسی پاؤڈر میں بدل جاتا ہے۔‘
علی احمد ابو سمرا جنوبی لبنان کے ایک گاؤں کے کسان ہیں جنھوں نے 19 اکتوبر 2023 کو خود کو سفید دھوئیں کے بادلوں میں گھرا ہوا پایا۔ بعدازاں انھیں معلوم ہوا کہ یہ فاسفورس حملہ تھا جو مبینہ طور پر اسرائیل کی جانب سے کیا گیا تھا۔
اس حملے کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اُس کی بُو لہسن جیسی تھی، لیکن اپنی شدت میں یہ ناقابلِ برداشت اور گٹر کی بدبو سے بھی زیادہ بدبودار تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس حملے کی زد میں آنے کے بعد ہماری آنکھوں سے پانی نکلنا شروع ہو گیا تھا، اگر ہم نے اپنی ناک اور منھ گیلے کپڑے سے نہ ڈھکے ہوتے تو شاید ہم یہ کہانی سنانے کے لیے آج زندہ نہ ہوتے۔‘
بی بی سی عربی نے چار لبنانی علاقوں میں اکتوبر 2023 سے مارچ 2024 کے دوران اسرائیل کی جانب سے وائٹ فاسفورس حملوں کی آزادانہ تصدیق کی ہے۔
لبنانی کسان علی احمد مزید کہتے ہیں کہ جب 9 اور 10 اکتوبر کے درمیان اُن کے علاقے پر اسرائیل نے سفید فاسفورس کا حملہ کیا تو وہاں کوئی مسلح گروہ موجود نہیں تھا۔
اُن کے مطابق ’اگر حذب اللہ وہاں موجود ہوتی تو علاقہ مکینوں کی جانب سے انھیں علاقہ چھوڑنے کے لیے کہہ دیا جاتا، کیونکہ لوگ وہاں مرنا نہیں چاہتے تھے۔‘
بی بی سی کی جانب سے حذب اللہ کے جنگجوؤں کی اس اسرائیلی حملے کے دوران اُس علاقے میں موجودگی کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔
اس حملے میں 65 سالہ لبنانی شہری ابراہیم بھی متاثر ہوئے تھے اور انھیں سانس لینے میں تکلیف کے سبب تین دن ہسپتال میں گزارنے پڑے تھے۔
اُن کا علاج کرنے والے ڈاکٹر محمد مصطفیٰ کہتے ہیں کہ انھوں نے ایسے بہت سے مریضوں کا علاج کیا ہے جو وائٹ فاسفورس کے حملوں سے متاثر ہوئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں آنے والے مریضوں میں دم گھٹنے، پسینہ آنے، اُلٹیاں اور دل کی دھڑکن متاثر ہونے کی علامات موجود تھیں۔ ان کے پاس سے لہسن کی بو آ رہی تھی اور ان کے خون کے نمونوں سے وائٹ فاسفورس کے استعمال کی تصدیق ہوئی تھی۔‘
گذشتہ چھ ماہ کے دوران اسرائیل نے سرحد پار سے جنوبی لبنان میں سفید فاسفورس کے گولے داغنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ سفید فاسفورس بطور ایک زہریلی گیس آنکھوں اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور شدید جلن کا باعث بن سکتی ہے اور انھی وجوہات کے باعث اس کے استعمال کو بین الاقوامی قوانین کے تحت سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
تاہم اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے غزہ اور لبنان میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف اس متنازع ہتھیار کا استعمال قانونی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سفید فاسفورس کے مبینہ استعمال کے معاملے کی تحقیقات جنگی جرم کے طور پر کی جانی چاہیے۔
گذشتہ سال اکتوبر میں غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر بھی تشدد میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں دونوں جانب سے ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوئیں اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے۔
لبنان میں موجود حذب اللہ کی جانب سے غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل پر راکٹ اور ڈرون حملے کیے جاتے ہیں جبکہ اسرائیلی فوج کی جانب سے فضائی اور توپ خانے سے حملے کیے جاتے ہیں، جن میں سفید فاسفورس کے حملے بھی شامل ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ڈائریکٹر لاما فقیہ کہتے ہیں کہ ’جب بھی گنجان آبادی والے شہری علاقوں میں سفید فاسفورس کا استعمال کیا جاتا ہے، تو اس سے شدید جلن اور شدید درد کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘
اس رپورٹ میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سفید فاسفورس کیا ہے اور اس کے استعمال کے بارے میں اتنے خدشات کیوں ہیں؟
سفید فاسفورس کیا ہے؟
سفید فاسفورس آتش گیر خصوصیات کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک کیمیائی مادہ ہے جو آکسیجن کے رابطے میں آنے پر بھڑک اٹھتا ہے اور جنگی مقاصد کے لیے اس کا استعمال توپ کے گولوں، بموں اور راکٹوں میں ہوتا ہے۔
ایک بار جب سفید فاسفورس آکسیجن کے ساتھ رابطے میں آتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والا کیمیائی ردعمل 815 ڈگری سینٹی گریڈ تک شدید گرمی پیدا کرتا ہے۔ سفید فاسفورس کے آکسیجن کے رابطے میں آنے سے جہاں یہ جلتا ہے وہیں ہلکا اور گاڑھا دھواں بھی پیدا کرتا ہے۔ جب سفید فاسفورس انسانوں کے ساتھ رابطے میں آتا ہے تو یہ خوفناک تکالیف کا سبب بنتا ہے۔
یہ تباہ کن آگ کا سبب بھی بن سکتا ہے اور عمارتوں، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر سکتا ہے اور بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سفید فاسفورس کس طرح استعمال کیا جاتا ہے؟
سفید فاسفورس کا استعمال زیادہ تر زمینی اور فوجی کارروائیوں کو مخفی رکھنے یا آپریشنز کے دوران سموک سکرین قائم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ سفید فاسفورس کا استعمال کرتے ہوئے فوجیں سموک سکرین بناتی ہیں تاکہ اپنی سرگرمیوں کو دشمن سے مخفی رکھ سکیں۔
سفید فاسفورس انفراریڈ آپٹکس اور ہتھیاروں سے باخبر رہنے کے نظام میں بھی مداخلت کرتا ہے اور فوجی دستوں کو ٹینک شکن میزائل جیسے گائیڈڈ ہتھیاروں سے بچاتا ہے۔
سفید فاسفورس کو آگ لگانے والے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2004 میں عراق کے فلوجہ میں دوسری جنگ کے دوران چھپے ہوئے جنگجوؤں کو باہر نکالنے کے لیے سفید فاسفورس کا استعمال کیا گیا تھا۔
سفید فاسفورس کتنا نقصان پہنچاتا ہے؟
سفید فاسفورس سے رابطے پر آنے سے انسانوں کو شدید جلن کا احساس ہوتا ہے۔ اس سے اس قدر شدید جلن ہوتی ہے جو اکثر ہڈیوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس جلن کی وجہ سے آنے والے زخم بھرنے میں وقت لگتا ہے اور لوگ انفیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اگر سفید فاسفورس سے انسانی جسم کا صرف 10 فیصد حصہ زخمی ہو جائے تو یہ جان لیوا ہے۔ اس کے رابطے میں آنے پر انسانوں کو سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے اور جسم کے کئی اعضا کام کرنا بند کر سکتے ہیں۔
جو لوگ سفید فاسفورس کی وجہ سے ہونے والی ابتدائی چوٹوں سے بچ جاتے ہیں وہ ساری زندگی درد میں مبتلا رہتے ہیں، ان کی نقل و حرکت متاثر رہتی ہے اور ان کے جسم پر جو نشانات رہ جاتے ہیں ان کا ان کی نفسیاتی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے۔
سفید فاسفورس کی وجہ سے لگنے والی آگ گھروں اور عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے، فصلوں کو تباہ کر سکتی ہے اور مویشیوں کو ہلاک کر سکتی ہے۔
سفید فاسفورس سے متعلق قانونی اور اخلاقی خدشات
مسلح تنازعات میں سفید فاسفورس کا استعمال کئی بین الاقوامی قانونی فریم ورک کے تابع ہے۔
سفید فاسفورس کو روایتی ہتھیاروں کے کنونشن (سی سی ڈبلیو) کے پروٹوکول سوم کے تحت شہری آبادیوں یا شہری علاقوں میں آگ لگانے والے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
پروٹوکول کے تحت اسے بین الاقوامی انسانی قانون کے اصولوں کے مطابق صرف سگنلنگ، سکریننگ اور مارکنگ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
مسلح تنازعات میں سفید فاسفورس کے استعمال نے اہم بحث کو جنم دیا ہے، کچھ لوگوں نے شہریوں اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے سخت ضابطوں اور زیادہ نگرانی کا مطالبہ کیا ہے۔
اکثر اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ مسلح افواج کے لیے مسلح تصادم کے دوران شہریوں اور ماحول دونوں پر مضر اثرات کو کم کرنے کے لیے سفید فاسفورس ہتھیاروں کے استعمال میں احتیاط برتنا اور بین الاقوامی انسانی قوانین اور کنونشنوں کی تعمیل کرنا کتنا ضروری ہے۔