اسلام آباد (ڈیلی اردو) ملک کی طاقت ور خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم کر دی گئی۔
ذرائع نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ انکوائری کمیٹی اعلیٰ عدلیہ اور وزارت دفاع کے احکامات کی روشنی میں قائم کی گئی ہے، سابق چیف آئی ایس آئی کے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی معاملات کی اعلیٰ عدلیہ سماعت کر چکی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ فیض حمید پر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے، اعلی ٰسطح کی کمیٹی الزامات کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کرے گی، کمیٹی الزامات ثابت ہونے پر ان کے خلاف سفارشات پیش کرے گی۔
گزشتہ روز فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو کلین چٹ دی گئی۔ کمیشن کی رپورٹ 149 صفحات پر مشتمل ہے۔ کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں قائم کیا گیا تھا جس نے دھرنے سے جڑے محرکات کا بغور جائزہ لے کر سفارشات تیار کیں۔رپورٹ میں اسلام آباد پولیس، وزارت داخلہ، حکومت پنجاب، آئی ایس آئی اور آئی بی کے کردار پر روشنی ڈالی گئی۔ اس میں اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد سے جڑے معاملات پر بھی تفصیل درج ہے۔رپورٹ کے مطابق فیض حمید نے بطور میجر جنرل ڈی جی (سی) آئی ایس آئی معاہدے پر دستخط کرنا تھے، اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف نے فیض حمید کو معاہدے کی باقاعدہ اجازت دی تھی۔فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ فیض حمید کے دستخط پر وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر اعظم شاہد خاقان نے بھی اتفاق کیا تھا۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دی گئی سفارشات میں نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پرعمل درآمد یقینی بنانے پر زور دیا ہے.کمیشن کی سفارشات میں پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں کمزوریوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا ہوگا،حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے فیض آباد دھرنے جیسے واقعات کو ہوا ملتی ہے، پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی مارچ کو لاہور میں روکنے کے بجائے اسلام آباد جانے کی اجازت دی۔
جڑواں شہروں کی پولیس میں رابطے کی فقدان کی وجہ سے متعدد ہلاکتیں اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے، وفاقی حکومت نے مظاہرین کی قیادت تک رسائی کے لیے آئی ایس آئی کی خدمات حاصل کیں.25نومبر2017کو ایجنسی تعاون سے معاہدہ ہوا جس پر مظاہرین منتشر ہوگئے۔رپورٹ کے مطابق دھرنے کے دوران فوجی افسروں، نواز شریف اور وزراء کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی گئیں.سوشل میڈیا پروپیگنڈے کیخلاف حکومت نے ایکشن لینے میں کوتاہی برتی، فیض آباد دھرنے کے دوران شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کی ملکی قیادت نے کسی ادارے یا اہلکار کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا، سویلین معاملے میں فوج یا ایجنسی مداخلت سے ادارے کی ساکھ شدید متاثر ہوتی ہے.فوج کو تنقید سے بچنے کے لیے عوامی معاملات میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔عوامی معاملات کی ہینڈلنگ آئی بی اور سول ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے، حکومت پنجاب غافل اور کمزور رہی جس کے باعث خون خرابہ ہوا.عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کیلئے امن کو اسٹریٹجک مقصد بنانا ہوگا. ریاست آئین پرستی، انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ نہ کرے۔کمیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ اسلام آباد تعیناتی سے قبل پولیس افسران کو دشوار علاقوں میں تعینات کیا جائے.امن عامہ حکومت کی ذمہ داری ہے دیگر شعبوں کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے. پُرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے زیرو ٹالرینس پالیسی لازمی ہے۔