اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستان نے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام سے میں تعاون کے الزامات پر چار تجارتی کمپنیوں کے خلاف امریکی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد برآمدی کنٹرول کے “سیاسی استعمال” کو تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نسیم زہرہ بلوچ کی طرف سے یہ بیان امریکی محمکہ خارجہ کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ واشنگٹن نے پاکستان کے میزائل پروگرام کی تیاری اور اس کے لیے تعاون فراہم کرنے پر تین چینی اور بیلا روس کی ایک کمپنی پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو مِلر کی جانب سے جاری کیے گئے اس بیان میں کہا گیا تھا، ”امریکہ ان چار کمپنیوں کو نامزد کر رہا ہے، جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل میں ملوث رہی ہیں۔ امریکہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف کارروائی کرتا رہے گا۔‘‘
ہفتے کے روز پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا،” ہم امریکہ کے تازہ ترین اقدامات کی تفصیلات سے واقف نہیں ہیں، ماضی میں ہم نے کئی ایسے واقعات دیکھے ہیں، جہاں محض شک کی بنیاد پر فہرستیں بنائی گئیں یا پھر ان میں شامل اشیاء کے کسی کنٹرول لسٹ میں نہ ہونےکے باجود انہیں حساس سمجھا گیا۔‘‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چند ممالک کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے رعایت دیتے ہوئے ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے دائرہ کار کو ختم کر دیا گیا۔ ترجمان کے مطابق یہ صورتحال ہتھیاروں کی تیاری میں اضافے کا سبب بن رہی ہے اور اس سے علاقائی ہم آہنگی، ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ، علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے مقاصد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاکستان کے انگریزی اخبار روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی جانب سے جن کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان میں بیلاروس میں قائم منسک وہیل ٹریکٹر پلانٹ، عوامی جمہوریہ چین میں قائم ژیان لونگڈ ٹیکنالوجی ڈویلمپنٹ کمپنی لمیٹڈ، تیانجن کریٹیو سورس انٹرنیشنل ٹریڈ کمپنی لمیٹڈ اور گرانپیکٹ کمپنی لمیٹڈ شامل ہیں۔
ان پابندیوں کے مطابق نامزد کردہ اداروں کی امریکہ یا امریکی دائرہ اختیار میں موجود جائیدادوں اور ان سے وابستہ مفادات بند کر دیے گئے ہیں۔ مزید برآں نامزد افراد کی طرف سے 50 فیصد یا اس سے زیادہ کی بالواسطہ یا بلاواسطہ ملکیت رکھنے والے افراد یا ادارے بھی ان پابندیوں کے تابع ہیں۔
یہ اقدامات نامزد افراد کے ساتھ کسی بھی قسم کے لین دین پر پابندی لگاتے ہیں، جب تک کہ انہیں غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول کرنے کے امریکی محکمے (او ایف اے سی) کی طرف سے مستثنیٰ قرار نہ دیا گیا ہو۔ مزید یہ کہ ان پابندیوں کے تحت نامزد افراد کا امریکہ میں داخلہ بھی روک دیا گیا ہے۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے اپنے بیان میں”سماجی و اقتصادی ترقی کے حصول میں ٹیکنالوجی تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ایک معروضی طریقہ کار کے لیے متعلقہ فریقوں کے درمیان بات چیت‘‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔