واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے/اے ایف پی) بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی بنا پر ایک الٹرا آرتھوڈوکس اسرائیلی فوجی یونٹ پر پابندی لگانے والا ہے۔ جس پر اسرئیلی وزیر اعظم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے انتہائی غیرمعقول قرار دیا ہے۔
اس اقدام کا اشارہ اس وقت ملا جب اٹلی میں ایک صحافی نے امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن سے ان رپورٹوں کے بارے میں پوچھا کہ ان کے محکمے نے مغربی کنارے میں پرتشدد واقعات میں ملوث ایک اسرائیلی یونٹ کی فوجی امداد میں کٹوتی کی سفارش کی تھی۔
یہ الزامات 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے ہلاکت خیز حملوں سے پہلے کے ہیں۔
وزیرخارجہ بلنکن نے اس سلسلے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کا محکمہ ایک قانون کے تحت تحقیقات کر رہا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے غیر ملکی سیکیورٹی یونٹس کو فوجی امداد دینے پر پابندی لگاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ آپ کو بہت جلد نتائج دکھائی دیں گے۔ میں نے اس کا عزم کر لیا ہے اور آپ آنے والے دنوں میں نتائج دیکھنے کی توقع کر سکتے ہیں۔
2022 کے آخر میں، امریکی محکمہ خارجہ نے اسرائیل میں اپنے سفارت خانے کے عملے کو مغربی کنارے میں فوج کی ایک کٹر یہودی بٹالین ’نٹزیک یہودا‘ کی مبینہ بدسلوکی کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کی تھی۔
جنوری 2022 کے اس واقعہ میں ایک 78 سالہ فلسطینی امریکی، حراست میں لیے جانے کے بعد دل کا دورہ پڑنے سےانتقال کرگئے تھے۔
اگرچہ ان الزامات کا تعلق حماس کے حملوں اور اسرائیل کی جوابی فوجی کارروائی سے پہلے سے ہے، لیکن اسرائیلی فورسز کے خلاف کسی بھی قسم کی پابندیوں کی تجویز پر اپنے ردعمل میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
نیتن یاہو نے ہفتے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ میں حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی شہریوں پر پابندیاں عائد کیے جانے کو روکنے کے لیے کام کر رہا ہوں، جس میں امریکہ کے سینئر حکومتی عہدے داروں سے میری بات چیت بھی شامل ہے۔
پوسٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک ایسے وقت میں، جب ہمارے فوجی دہشت گردی کے ایک عفریت سے لڑ رہے ہیں، اسرائیل ڈیفنس فورس(آئی ڈی ایف) کے ایک یونٹ پر پابندی لگانے کا ارادہ نامعقولیت کی انتہا اور اخلاقی گراوٹ ہے۔ میری سربراہی میں حکومت ایسی تجاویز کےخلاف ہر طرح سے اقدامات کرے گی۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یووگیلنٹ نے بھی اس مسئلے پر فوج کے سربراہ ہرزی ہلوی کے ساتھ بات چیت کے بعد پابندیوں کے امکان پر تنقید کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نیٹزک یہودا‘ بٹالین کے کمانڈر اور فوجی اگلے محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ وہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کو شمالی سرحد سے پیچھے دھکیلنے اور یہودیہ اور سامریہ میں دہشت گردی کو کچلنے، اور حالیہ عرصے میں غزہ میں حماس کے بریگیڈیز کو منتشر کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ یہ کارروائیاں بین الاقوامی قانون اور اسرائیلی فوج کی اقدار کے مطابق کر رہے ہیں۔
انہوں نے واشنگٹن پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی اس بٹالین پر پابندیاں لگانے کے اپنے ارادے کو واپس لے۔
ایکسیاس (Axios) نے اس معاملے کے بارے میں معلومات رکھنے والے تین امریکی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ہفتے کے روز کہا کہ توقع ہے کہ بلنکن آئندہ چند روز میں اسرائیلی بٹالین کے خلاف پابندیوں کا اعلان کریں گے۔
ویب سائٹ کا مزید کہنا تھا کہ اس یونٹ پر پابندیوں کی نوعیت امریکی فوجی امداد یا تربیت کے حصول پر پابندی ہو سکتی ہے۔
اس سے قبل ’پروپبلیکا‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ محکمہ خارجہ کے ایک خصوصی پینل نے دسمبر میں سفارش کی تھی کہ بلنکن مغربی کنارے میں خدمات انجام دینے والے فوج اور پولیس کے کئی یونٹوں کو امریکی امداد کے لیے نااہل قرار دے دیں۔
جب کہ ایک تازہ ترین پیش رفت میں ہفتے کے روز امریکی ایوان نمائندگان نے بھاری اکثریت سے اسرائیل کے لیے 26 ارب ڈالر کی نئی ہنگامی امداد کے بل کی منظوری دی ہے۔