اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے میں حکومتی اداروں کی مداخلت کے الزام کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
اعظم نذیر تارڑ منگل کے دن وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عطا اللہ تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کر رہے تھے جہاں انھوں نے لاپتا افراد کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مسئلہ حل کرنے میں حکومت کی جانب سے کوئی سُستی نہیں ہے، حکومت کو اپنی پوری ذمہ داریوں کا احساس ہے۔‘
وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ ’لاپتا افراد کا معاملہ 2011 میں اُٹھا جس پر حکومت کی جانب سے کمیشن بنا دیا گیا جس نے 10 ہزار دو سو کے قریب کیسز میں سے 8000 کیسز کو حل کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی بھی 23 فیصد کیسز پر کام ہونا باقی ہے۔‘
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ’حکومت کی جانب سے اس مسئلے کے حل میں کسی بھی قسم کی کوئی سُستی نہیں ہے لیکن چار دہائیوں پر محیط اس مسئلے کو اتنی جلدی حل نہیں کیا جا سکتا جس کی اُمید کی جا رہی ہے۔‘
وفاقی وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ ’دونوں اطراف سے اس معاملے میں کُچھ نا کُچھ مسائل ہیں، اگر آپ کہیں کے حکومتی اداروں کی اس معاملے میں مداخلت ہے تو یکسر اس بات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی واضح یا مستند شواہد سامنے آئے ہیں؟ تو اس کا جواب جو میرے سامنے آیا نفی میں تھا۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر یعنی لاپتا افراد سے متعلق سامنے آنے والی رپورٹس میں سے 100 فیصد درست بھی نہیں ہوتیں اور ہمارے سامنے کُچھ ایسے معاملے بھی آئے کہ جن لاپتا افراد کے ورثا نے کہا کہ ہمیں اُن کی تدفین کی اجازت دی جائے۔‘
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ اگر کسی شخص پر یہ الزام ہے کہ وہ کسی پُرتشدد یا ریاست مخالف کارروائی میں ملوث ہے تو اُس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔