واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل سے جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران اسلام آباد اور تہران کے درمیان طے پانے والی مفاہمت کی یادداشتوں کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ”ہماری عمومی پالیسی یہ ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پرغور کرنے والوں کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ ممکنہ پابندیوں سے آگاہ رہیں۔‘‘
خیال رہے کہ ایرانی صدر رئیسی نے پاکستان کے تین روزہ دورے کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف، صدر آصف علی زرداری اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت متعدد پاکستانی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کے موجودہ معمولی حجم پر ناراضگی اور عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا تھا۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے مابین ملاقات کے دوران دونوں ہمسایہ ممالک نے آئندہ پانچ برسوں میں باہمی تجارت کا حجم دس بلین ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔ دوطرفہ تجارت کا موجودہ حجم تقریباً دو بلین ڈالر ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان نے تاہم کہا کہ اسلام آباد کو اپنی خارجہ پالیسی خود طے کرنا ہے۔ ویدانت پٹیل نے کہا، ”بالآخر حکومت پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات پر خود ہی بات کر سکتی ہے۔‘‘
پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے سپلائرز پر امریکی پابندیاں
خیال رہے کہ امریکہ نے اس ہفتے کے اوائل میں پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے ساز و سامان سپلائی کرنے والی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں، ان میں تین چینی کمپنیاں شامل ہیں۔
ان کمپنیوں پر پابندیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان کا کہنا تھا، ”ہم نے پابندیاں اس لیے لگائیں کہ یہ ادارے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کے لیے ترسیل کے ذرائع تھے۔‘‘
ویدانت پٹیل نے کہا، ”یہ چین اور بیلاروس میں کام کرنے والے ادارے تھے، ہم نے پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات، قابل اطلاق اشیاء کی فراہمی دیکھی ہے۔‘‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا، ”تیئیس اکتوبر کو ہم نے چین کے تین اداروں پر پابندیاں لگائی تھیں جنہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام کی سپلائی کے لیے کام کیا تھا۔ ہم خطرناک ہتھیار پھیلانے والے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کرتے رہیں گے، چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔‘‘
پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کے الزام میں چار بین الاقوامی کمپنیوں کے خلاف امریکی پابندیوں پر پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا تھا، ”اگرچہ ہم امریکہ کے تازہ ترین اقدامات کی تفصیلات سے واقف نہیں ہیں تاہم ماضی میں ہم نے ایسی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں، جب صرف شک کی بنیاد پر (کمپنیوں کی) کی فہرست بنائی گئی یا یہاں تک کہ جب بیان کردہ سامان کسی کنٹرول لسٹ میں نہیں تھا لیکن اسے وسیع تر دفعات کے تحت حساس سمجھا گیا۔‘‘
ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا کیا ہو گا؟
امریکہ کی طرف سے تازہ وارننگ کے بعد یہ سوال پھر پیدا ہو گیا ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ کا کیا ہو گا؟
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران اور پاکستان نے اربوں ڈالر مالیت کے ایک گیس پائپ لائن بچھانے کے ایک معاہدے پر جون 2009 میں دستخط کیے تھے۔ تہران گو کہ اپنی طرف کی 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام سن 2011 میں ہی مکمل کر چکا ہے لیکن پاکستان اپنے حصے کی 80 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام اب تک پورا نہیں کر سکا۔
منصوبے کی مقررہ مدت میں کئی مرتبہ ترمیم کی وجہ سے تہران نے عدم اطمینان بھی ظاہر کیا تھا اور معاہدے کے تحت پاکستان پر 18 بلین ڈالر جرمانہ عائد کیے جانے کی دھمکی بھی دی تھی۔ اگرچہ پاکستان نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ اس سال ستمبر تک یہ منصوبہ مکمل کر لے گا تاہم امریکہ کی جانب سے اس حوالے سے تنبیہ کے تناظر میں ایسا ہوتا مشکل دکھائی دیتا ہے۔