بغداد (ڈیلی اردو/وی او اے/اے ایف پی) عراقی حکام نے اس ہفتے “دہشت گردی” کے جرم میں کم از کم 11 افراد کو پھانسی دی ہے۔ جب کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دہشت گردی کے الزامات کو مبالغہ آمیز حد تک وسیع اور غیر واضح قرار دیا ہے۔
عراقی قانون کے تحت دہشت گردی اور قتل کے جرائم کی سزا موت ہے اور پھانسی کےحکم نامے پر صدر کے دستخط ہونا ضروری ہیں۔
عراق کے جنوبی صوبے ذی قار میں ایک سیکورٹی ذریعے نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ “وزارت انصاف کی ٹیم کی نگرانی میں داعش کے 11 دہشت گردوں” کو ناصریہ شہر کی ایک جیل میں پھانسی دی گئی۔
ذریعہ نے مزید کہا کہ ،انہیں پیر کو انسداد دہشت گردی قانون کی شق چار کے تحت پھانسی دی گئی۔ اس نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اپنا نام خفیہ رکھنے کی درخواست کی۔
ایک مقامی طبی ذریعے نے بھی تصدیق کی کہ محکمہ صحت کو پھانسی پانے والے گیارہ افراد کی لاشیں ملی ہیں۔
میڈیکل افسر نے بتایا کہ تمام گیارہ افراد کا تعلق صوبہ صلاح الدین سے تھا اور سات کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی ہیں۔
ایمنیسٹی کی مذمت
ایمنسٹی نے بدھ کے روز ایک بیان میں تازہ ترین پھانسیوں کی مذمت کرتے ہوئے، دہشت گردی کے الزامات کو “مبالغہ آمیز حد تک وسیع اور غیر واضح” قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پیر کےروز کل 13 افراد کو پھانسی دی گئی، جن میں سے گیارہ کو داعش کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر سزا سنائی گئی۔”
ایمنسٹی نے اپنے وکیل کے حوالے سے کہا کہ دیگر دو افراد کو، جنہیں 2008 میں گرفتار کیا گیا تھا، “ایک انتہائی غیر منصفانہ مقدمے کے بعد، فوجداری ضابطے کے تحت دہشت گردی سے منسلک جرائم کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔”
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے گروپ، ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے عراق میں حالیہ مہینوں میں پھانسیوں کے حوالے سے شفافیت میں کمی ہونے کی مذمت کی۔
ایمنسٹی کے عراقی ریسرچر رضا صالح نے کہا”عراقی حکومت کو فوری طور پر پھانسیوں کو با ضابطہ طورپر معطل کرنا چاہئیے اور سزائے موت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہئیے۔”
سزائے موت کے مقدمات پر حقوق گروپوں کی تنقید
عراقی عدالتوں نے حالیہ برسوں میں سینکڑوں لوگوں کو کسی دہشت گرد گروپ کی رکنیت کے جرم میں موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ عراق میں کسی دہشت گرد گروپ کی رکنیت ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔ قطع نظر اس کے کہ سزا پانے والا اس گروپ کا کوئی سرگرم جنگجو رہا ہو یا نہیں۔
عراق ایسے مقدمات کی وجہ سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے جو ان مقدمات کی اس بنیاد پر مذمت کرتے رہے ہیں کہ انہیں جلد بازی میں نمٹایا جاتا ہے اور کبھی کبھی اذیت رسانی کے ذریعے حاصل کیے گئے اقبال جرم کی بنیاد پر سزا دی جاتی ہے۔
عراق میں سزائے موت پر نظر رکھنے والے اقوام متحدہ کے ماہرین نے “ان رپورٹس پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا کہ عراق نے اپنے جیلوں کے نظام میں بڑے پیمانے پر سزائے موت دینا شروع کر دی ہے۔”
غیر جانبدار ماہرین نے، جنہیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے لیکن وہ اس کی جانب سے بات نہیں کرتے، اپنے بیان میں ناصریہ جیل میں گزشتہ سال کے آخر میں دی جانے والی پھانسیوں کا ذکر کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ عراق کے تیرہ مرد قیدیوں کو، جنہیں موت کی سزا سنائی جا چکی تھی، 25 دسمبر 2023 کو پھانسی دی گئی تھی۔
بیان میں، 16 نومبر 2020 کے بعد سے، جب 20 افراد کو پھانسی دی گئی تھی، سزائے موت کے اس عمل کو عراقی حکام کی جانب سے مبینہ طور پر ایک دن میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد قرار دیا گیا۔