اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان نے امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے انسانی حقوق پر جاری کی گئی 2023 کی سالانہ رپورٹ میں پاکستان سے متعلق معلومات کو حقائق کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
جمعرات کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ ہر سال اس رپورٹ کی تیاری میں جو طور طریقہ کار اختیار کرتا ہے وہ معروضی نہیں اور اس میں کئی سقم پائے جاتے ہیں۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے 22 اپریل کو انسانی حقوق سے متعلق رپوٹ برائے سال 2023 جاری کی تھی جس میں دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے حقوق کی پامالی میں ملوث افراد کے خلاف کسی احتساب یا اقدامات کے فقدان پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
رپورٹ میں پاکستان میں 2023 میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالی کے متعدد مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں ماورائے عدالت قتل؛ جبری گمشدگیوں کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
رپورٹ میں حکومت یا اس کے ایجنٹوں کی طرف سے ظالمانہ، غیر انسانی، یا ذلت آمیز سلوک، من مانی حراستیں، سیاسی بنیادوں پر گرفتاریاں، آزادیٔ اظہار اور میڈیا کی آزادی پر سنگین پابندیوں جیسے نکات شامل ہیں۔
مذکورہ رپورٹ پر باضابطہ ردعمل میں پاکستان کے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ رواں سال جاری ہونے والی رپورٹ میں بھی غیر جانب داری سے کام نہیں لیا گیا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے ایجنڈا کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
جاری کردہ بیان میں اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ امریکی رپورٹ میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بات تو کی گئی ہے لیکن غزہ اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر جیسے خطوں میں ہونے والی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے یا ان کی شدت کو گھٹا کر بیان کیا گیا ہے۔
پاکستان نے الزام عائد کیا ہے کہ ’صرف سیاسی محرکات کی بنا پر جاری ہونے والی رپورٹ‘ ہی میں غزہ جیسے انسانی المیے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے جہاں 33 ہزار سے زائد شہریوں کا ’قتلِ عام‘ کیا گیا ہے۔
دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال پر امریکہ کی خاموشی اس رپورٹ کے بیان کردہ مقاصد کے منافی ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پچھلے سال سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی ہے اور اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں اپنے ردِعمل میں شہریوں کو کم سے کم نقصان پہنچائے۔
رپورٹ کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے مغربی کنارے میں انتہا پسند آباد کاروں کے فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی بھی مذمت کی ہے۔
علاوہ ازیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں زندگی کے کئی شعبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ رپورٹ میں جموں و کشمیر، بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں اور ماؤ نواز گروپ سے متاثرہ علاقوں میں سرکاری فورسز اور غیر سرکاری اداروں کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں بھارت میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان پر تشدد واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
پاکستانی دفترِ خارجہ نے ملک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپنے آئینی دائرہ کار اور مقامی اخلاقی اصولوں کے مطابق حقوقِ انسانی کے عالمی ایجنڈے کی پاسداری اور اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔
اس سے قبل امریکی محکمۂ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے میڈیا بریفنگ کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کے ساتھ بات چیت میں بھی انسانی حقوق کی صورت حال ایجنڈے میں شامل ہوتی ہے اور امریکہ اس معاملے کو اٹھاتا رہے گا۔
وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہیومن رائٹس رپورٹ میں سال 2023 میں رونما ہونے والی ہر انسانی حقوق کی خلاف ورزی درج نہیں ہے اور نہ ہی سالانہ رپورٹ تمام خلاف ورزیوں کی کوئی اجتماعی فہرست ہے بلکہ اس رپورٹ میں مخصوص عنوانات کے تحت معلومات درج ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بلاشبہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کی بات ہو، انسانی حقوق بدستور ایجنڈے میں شامل ہے اور یہ وہ چیز ہے جسے ہم پاکستان کے ساتھ بھی اٹھاتے رہیں گے۔