رضا علی عابدی قتل کیس: انسداد دہشتگردی عدالت نے چار ملزمان کو عمر قید کی سزا سنا دی

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ سندھ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ایم کیو ایم کے رہنما رضا علی عابدی کے قتل کے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر چار ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

عبدالحسیب، غزالی، محمد فاروق اور ابو بکر نامی ملزمان کو دہشت گردی ایکٹ کے تحت بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔اس کے علاوہ عدالت نے ملزمان پر ایک، ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا ہے۔

عدالت نے کیس کے مفرور ملزمان محمد فاروق، حسنین اور غلام مرتضی عرف کالی چرن کے خلاف کیس داخل دفتر کر دیا ہے۔ عدالت نے حکم میں کہا ہے کہ ملزمان جب بھی گرفتا ہوں تو انھیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔

ملزمان کے خلاف گذری تھانے میں دہشت گردی ایکٹ اور قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

متحدہ قومی موومنٹ سے وابستہ سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کو 25 دسمبر 2018 کی شب کراچی کے علاقے ڈیفینس میں خیابان اتحاد کے قریب واقع اپنے ہی گھر کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔

ان کے والد اخلاق عابدی کی جانب سے درج ایف آئی آر کے مطابق 25 دسمبر کو وہ اپنے گھر کے گراونڈ فلور پر موجود تھے کہ رات کو ساڑھے آٹھ بجے گھر کے مین گیٹ پر فائرنگ کی آواز آئی تو وہ لاؤنج کا دروازہ کھول کر مین گیٹ کی طرف دوڑے۔

اسی دوران مزید فائرنگ کی آواز سنائی دی اور وہ جیسے ہی گیٹ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل پر سوار پینٹ شرٹ میں ملبوس نوجوان فائرنگ کرتے ہوئے بھاگ رہے ہیں اور ان کا بیٹا علی رضا عابدی سفید رنگ کی فارچونر گاڑی میں شدید زخمی حالت میں ڈرائیونگ سیٹ پر ڈھلکا ہوا تھا۔

اخلاق عابدی نے لوگوں کی مدد سے اپنے بیٹے کو ساتھ والی سیٹ پر منتقل کیا اور گاڑی چلا کر پی این ایس شفا ہسپتال لے گئے، جہاں ڈاکٹروں نے ان کی جان بچانے کی کوشش تو کی مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔

اتفاقیہ گرفتاری

علی رضا عابدی کے قتل میں ملوث مبینہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس نے کوئی تگ و دو نہیں کی بلکہ یہ گرفتاریاں اتفاقاً عمل میں آئیں جس کا اعتراف خود پولیس رپورٹ سے بھی ہوتا ہے۔

عدالت میں پیش کیے گئے چالان میں سب انسپیکٹر محمد زریں خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ محمد فاروق نامی ایک ملزم غیر قانونی اسلحے کے الزام میں گرفتار ہوا تھا جس نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ علی رضا کے قتل میں ملوث ہے۔ مزید تفتیش پر ملزم نے بتایا کہ اس نے اپنے حقیقی بھائی مصطفیٰ عرف کالی چرن اور دیگر ساتھیوں بلال، حسنین، ابوبکر، فیضان، محد غزالی اور عبدالحسیب کے ساتھ منصوبہ بندی کر کے مقتول کو 25 دسمبر کو اس کے گھر کے باہر قتل کیا۔

ملزم فاروق کے بیان کے مطابق اس کی اپنے ساتھی ملزمان ابوبکر، محمد غزالی اور عبدالحسیب سے ککری گراونڈ لیاری میں ملاقات طے تھی لیکن وہ گرفتار ہو گیا۔

ملزم کی نشاندہی پر 4 مارچ دوپہر ڈھائی بجے پولیس نے اندرون ککری گراونڈ سے تین افراد کو گرفتار کر لیا۔

علی رضا عابدی کا مقدمہ اس وقت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیرسماعت ہے۔ چار ملزمان میں سے فاروق، غزالی اور ابوبکر جیل میں ہیں جبکہ عبدالحسیب ضمانت پر رہا ہے جبکہ چار ملزمان حسنین، بلال، فیضان اور غلام مصطفیٰ عرف کالی چرن مفرور ہیں۔

کئی ماہ تک ریکی کی گئی

گرفتار ملزمان کے موبائل فونز کی جیو فینسنگ رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ وہ چھ ماہ سے علی رضا کی جاسوسی کر رہے تھے اور موقع پاتے ہی انھیں قتل کر دیا۔

پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان سے جب تفتیش کی گئی تو محمد فاروق نے بتایا کہ بلال اور حسنین کے کہنے پر وہ اپنے بھائی مصطفیٰ عرف کالی چرن کے ساتھ فش ہاربر میں واقع علی رضا کے دفتر گئے اور ان کی ریکی کی اور جب ریکی مکمل ہو گئی تو 25 دسمبر کو مصطفیٰ نے بلال اور حسنین کو بلوایا۔

’رات کو مصطفیٰ اور دیگر نے مجھے بتایا کہ علی رضا کو ہم نے اس کے گھر کے باہر فائرنگ کر کے قتل کردیا ہے جبکہ واردات میں استعمال موٹر سائیکل کو لیاری میں آگ لگا دی اور اس کے بعد اسلحہ غزالی کو دے دیا۔‘

قتل کی سپاری آٹھ لاکھ روپے

پولیس کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ملزم محمد غزالی نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اس کو بلال نے لیاری بلایا اور آٹے کی تھیلی دے کر اسے اپنے گھر میں رکھنے کے لیے کہا۔ تین روز بعد بلال کا دوبارہ فون آیا کہ وہ تھیلی لیاری میں آنکھوں کے ہسپتال کے پاس فیضان کو دے دو۔ محمد غزالی ملزم ابوبکر کے ہمراہ تھیلی، جس میں اسلحہ تھا، فیضان کو دیکر آئے۔ گرفتار ملزم ابوبکر نے بھی محمد غزالی کے ساتھ جانے کی تصدیق کی۔

علی رضا عابدی کے قتل کی سپاری آٹھ لاکھ روپے لی گئی تاہم یہ کس نے دی پولیس تاحال معلوم نہیں کر سکی۔

پولیس کے مطابق ملزم عبدالحسیب نے بتایا کہ وہ مصطفیٰ کے کہنے پر اپنے کزن کے ہمراہ حسینی بلڈنگ گئے، جہاں پر ایک شخص (جن کو وہ نہیں جانتے) نے انھیں آٹھ لاکھ روپے دیے جو انھوں نے لا کر مصطفیٰ کو دے دیے۔

کیا آئی فون سچ اگلے گا؟

علی رضا عابدی کے زیر استعمال دو موبائل فون تھے جو ان کی آنکھ کی پتلی (ریٹینا) کے کوڈ پر تھے لیکن وہ کھل نہیں پائے۔

ان کے والد اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ انھوں نے پوری کوشش کی اور آئی فون کمپنی سے بھی رابطہ کیا لیکن کمپنی کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یا عدالت ان سے رجوع کریں تو پھر وہ فون کھولیں گے تاہم واٹس اپ ضرور کھل گیا تھا لیکن اس میں پرانا ریکارڈ نہیں بلکہ صرف موجودہ ریکارڈ دستیاب تھا۔

’دوسرا مسئلہ وراثت کا ہے کیونکہ علی رضا عابدی کی بیوی اور بچے فوری طور پر امریکہ چلے گئے۔ میں نے یہ فون امریکہ بھجوا دیے ہیں اور رضا کی فیملی انھیں کھلوانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

اخلاق عابدی کے وکیل ناصر حسین کا کہنا ہے کہ انھوں نے عدالت میں فون ریکارڈ کے لیے درخواست دی تھی کیونکہ کمپنی بیرون ملک ہے اس لیے عدالت نے کہا کہ یہ ان کا دائرہ اختیار نہیں۔

بریانی سے سرگرم رکن قومی اسمبلی تک

ایم کیو ایم میں رکن قومی اسمبلی بننے سے قبل علی رضا عابدی کی شہرت شہر کی مشہور ’سیون سیز‘ بریانی تھی۔ ایس ایم کامرس کالج میں تعلیم کے دوران وہ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ رہے اور اس کے بعد بزنس مینجمینٹ کی تعلیم کے لیے بوسٹن یونیورسٹی چلے گئے۔

وطن واپسی پر انھوں نے کاروبار کی دنیا میں قدم رکھا۔ پہلے وہ ایک آئس کریم کمپنی کے ساتھ منسلک رہے اور اس کے بعد اپنے والد کے سی فوڈ کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگے۔

ان کے والد اخلاق عابدی رکن قومی اسمبلی اور چچا میجر حامد عابدی صوبائی مشیر رہ چکے ہیں۔ اخلاق عابدی بتاتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے کہا کہ ہم یوتھ کی جماعت بناتے ہیں۔

’اس وقت سوشل میڈیا نیا نیا آیا تھا۔ انھوں نے ایم کو ایم کی قیادت کو بریفنگ دی اور اس کے بعد پروفیشنل ریسرچ ایڈوائزری کونسل بنائی جس میں نوجوان شامل کیے جو ایم کیو ایم کے لیے ٹویٹ کیا کرتے تھے اور یوں ایم کیو ایم کی سینئیر قیادت سے ان کا رابطہ ہوا اور سنہ 2013 کے انتخابات میں انھیں حلقہ این اے 251 سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا۔‘

سیاست میں شمولیت کی مخالفت

نیوز چینلز پر مہذب انداز میں اپنی جماعت کا مؤقف پیش کرنے والے علی رضا عابدی کی سیاست میں شمولیت کی فیملی نے سخت مخالفت کی۔

ان کے والد اخلاق عابدی بتاتے ہیں کہ پوری فیملی اس کی شدید مخالف تھی اور ان کی بیوی نہیں چاہتی تھیں کہ وہ سیاست میں جائیں کیونکہ ایم کیو ایم کے بارے میں دو قسم کی رائے رہی ہے۔

’جب یہ واقعہ ہو گیا تو خاندان کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ دیکھا تم نے اپنے بچوں کو سیاست میں ڈال دیا حالانکہ میں نے منع کیا تھا کہ وہ ایسا نہ کرے لیکن آپ کو پتہ ہے کہ وہاں سے ٹکٹ الاٹ ہو جائے تو پھر۔۔۔‘

الطاف حسین کے حمایتی ہونے کا الزام

متحدہ قومی موومنٹ جب لندن اور پاکستان کے دھڑوں میں تقسیم ہوئی تو علی رضا عابدی نے کچھ روز خاموشی اختیار کی لیکن سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر سرگرم رہے۔ انھوں نے حلقہ 243 سے الیکشن لڑا لیکن انھیں شکست ہوئی اور اس کے بعد ضمنی انتخابات سے ایک ماہ قبل انھوں نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔

اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ علی رضا فاروق ستار گروپ میں کام کر رہے تھے، اس میں کامران ٹیسوری آ گئے لیکن الیکشن کے موقع پر علی رضا عابدی فارق ستار کو بہادر آباد لے گئے اور انھوں نے بہادر آباد گروپ کے بینر تلے الیکشن لڑا لیکن کامران ٹیسوری کے ان کے ساتھ شدید اختلاف ہو گئے۔

’خواجہ اظہار اور فیصل سبزواری یہ اعتراض کرتے تھے کہ ان کو ضمنی انتخابات کا ٹکٹ نہ دیں کیونکہ ان کا تعلق لندن گروپ سے ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ اگر لندن گروپ سے تعلق ہوتا تو ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر ایکشن کیوں لڑتا۔ اسے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ الطاف حسین کے نام کے ساتھ جڑنے کا مطلب یعنی آپ کا حشر وہی ہوگا جو اور لوگوں کا ہوا ہے، علی رضا اتنا بے وقوف نہیں تھا کہ ایک ایسے وقت میں الطاف حسین کی حمایت یا اتحاد کرے جب پاکستان میں ان کا نام لینا بھی جرم ہو۔‘

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ جب ڈاکٹر فاروق ستار غیر سرگرم ہوئے تو علی رضا غیر سرگرم ہو گئے پھر انھوں نے کوشش کی کہ تمام (دھڑے) ایک ہو جائیں۔

ضمنی انتخابات میں مخالفت کے تاثر کو فیصل سبزواری نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے خود علی رضا سے بات کی تھی کہ الیکشن میں ان کا کیا موڈ ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ پارٹی نے ایسی کوئی بات نہیں۔

’اس الیکشن میں عامر چشتی کو ٹکٹ دیا گیا تھا کیونکہ اخراجات بھی وہ اٹھا لیتے۔ اس حلقے سے چند ماہ قبل علی رضا ہمارے امیدوار تھے وہ الیکشن ہم نے ہارا اس کے بعد ضمنی الیکشن بھی ہارا۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ بظاہر شکست ہونے والی نشست پر ہمارا ایک قابل ساتھی وہاں جائے، یہی ایک وجہ تھی پارٹی نے انھیں ٹکٹ نہیں دیا۔‘

ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں ان کے پارٹی کے سینئر دوستوں سے جو اختلافات ہوئے ان میں علی رضا پر پہلی لڑائی ہوئی کیونکہ وہ انھیں رابطہ کمیٹی میں شامل کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کہتے تھے کہ نہیں۔

’میں علی رضا کو عوامی رابطے والے شعبے میں لانا چاہتا تھا لیکن وہ کہتے تھے نہیں۔ ایک نفیس و مہذب اور قابل و باصلاحیت آدمی کو آپ نہیں لیں گے تو کیسے آگے بڑھیں گے۔‘

زرداری سے ملاقات اور فواد کی دعوت

علی رضا عابدی نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لیے بھی مذاکرات کیے۔ قیادت سے ملاقات کے بعد صوبائی وزیر سعید غنی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ اطلاع دی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سعید غنی کا دعویٰ تھا کہ علی رضا عابدی شمولیت پر رضامند ہو گئے تھے لیکن پھر انھیں ایک فون کال آئی اور ان کا فیصلہ بدل گیا۔

علی رضا کے والد اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ جب ایم کیو ایم سے ان کے بیٹے کا دل ہٹ گیا تھا تو وہ یہ سوچ رہے تھے کہ کسی اور جماعت میں چلے جائیں۔

’تمام بڑی جماعتوں کی جانب سے انھیں شمولیت کی پیشکش تھی۔ اس وقت کے گورنر سندھ محمد زبیر ان کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ مسلم لیگ نون میں آ جاؤ، سعید غنی علی رضا کے لیے تین مرتبہ گھر آئے، ایک بار تو انھیں آصف زرداری سے ملاقات کرانے بھی لے جایا گیا۔ زرداری نے انھیں کہا تھا کہ ’ادی فریال سے مل لینا‘ اس کے علاوہ فواد چوہدری بھی رابطے میں تھے۔‘

’ایک روز اس نے کہا کہ ابو آپ گھر پر رہیے گا عمران خان گھر آ رہے ہیں لیکن وہ نہیں آئے کیونکہ اس روز عمران خان کو جلد واپس اسلام آباد جانا پڑا تھا۔‘

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے علی رضا عابدی کو تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’علی رضا اچھے دوست تھے۔ انھیں کہا تھا کہ آپ پی ٹی آئی میں آ جائیں تو وہ سوچ رہے تھے لیکن عمران خان کے گھر جانے کی بات نہیں ہوئی کیونکہ انھوں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا تھا اگر کرتے تو عمران خان ضرور ان کے گھر جاتے۔‘

کیا قتل کے پیچھے سیاسی عوامل ہیں؟

کراچی میں سیاسی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ گزشتہ تین دہائی سے جاری ہے لیکن کیا علی رضا عابدی کے قتل کے پیچھے بھی سیاسی محرکات تھے؟ ان کے والد اِخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ یہ ایسا قتل نہیں کہ کسی نے سوچا اور کر دیا اس کے پیچھے بالکل سیاسی مقاصد موجود ہیں۔

’اس کے کئی مخالف تھے، خود اپنی پارٹی میں بھی۔ اس نے سوشل میڈیا پر کئی بار کہا تھا کہ میرے یو کے پی (الو کے پٹھے) دوست میری ٹویٹس اداروں کے پاس بھیجتے ہیں اور مجھے بدنام کرتے ہیں جیسے میں ملک کے خلاف کام کر رہا ہوں حالانکہ ایسی بات نہیں۔‘

اِخلاق عابدی کہتے ہیں کہ ’کیا ایم کیو ایم کا کارکن ہونا کوئی جرم ہے؟ اگر یہ جرم ہے تو پھر سارے ایم کیو ایم والوں کو مار دو لیکن آخری دنوں میں تو اس نے ایم کیو ایم چھوڑ بھی دی تھی۔‘

’اس نے ٹی وی پر ایک دو پروگرامز میں کہا تھا کہ میں الطاف حسین کو گالی نہیں دے سکتا میں انھیں اپنا محسن تصور کرتا ہوں کیونکہ انھوں نے مجھے ایم این اے کا ٹکٹ دلوایا تھا۔ اگر ان کی کچھ غلطیاں ہیں تو وہ جانیں اور ریاست جانے۔‘

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری کہتے ہیں کہ ’علی رضا عابدی بہت قابل اور سرگرم سیاسی ورکر تھے اور زیادہ امکان تو یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی قتل تھا کیونکہ اگر یہ فرقہ وارانہ قتل ہوتا تو ابھی تک سامنے آ جاتا۔‘

تحقیقات پر اعتراضات

اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ وہ تحقیقات سے مطمئن نہیں کیونکہ قتل میں استعمال کی گئی جس موٹر سائیکل کے بارے میں ملزمان نے کہا ہے کہ اس کو جلایا گیا، اس کا ڈھانچہ کہاں ہے؟ وہ کس کی ملکیت تھی جبکہ ملزمان سے اسلحہ برآمد کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔

اخلاق عابدی کے مطابق اس کے علاوہ واقعے کے بعد گلی کی جو فوٹیجز ہیں وہ بھی کئی عوامل کی نشاندہی کر رہی ہیں۔

’اس میں کئی فوٹیج واضح ہیں لیکن ان میں سے کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ ایک ڈیلیوری والا ہے جس کے سامنے یہ واقعہ ہوا اور ملزمان اس کے سامنے سے گزرے لیکن اس کو گواہ نہیں بنایا گیا۔ سی سی ٹی وی میں واضح ہے کہ ایک چھوٹی سفید رنگ کی کار گھر کے قریب آدھے گھنٹے رہتی ہے، وہ ظاہر ایسا کر رہے ہیں جیسے کوئی گھر ڈھونڈ رہے ہیں۔‘

’جس جگہ پر قاتل نے گولی چلائی تھی اس جگہ پر کچھ دیر پہلے کچھ لوگ ایک نشانی رکھ کر گئے تھے۔ اسی دوران ایک شخص چلتا ہوا آ رہا ہے کہ اس کا انداز ویسا ہی ہے جو حملہ آور کا تھا۔ وہ ڈیلیوری والے کی طرف دیکھتا بھی ہے لیکن اس کا پتہ نہیں لگایا گیا۔‘

ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ’علی رضا کے گھر کے تین راستے ہیں اور ان پر چھوٹے کیمرے لگے ہیں لیکن ساتھ میں جو بڑی سڑکیں ہیں ان پر بڑے کیمرے لگے ہیں ان کیمروں کی فوٹیج کو کیوں نہیں ملایا جا رہا کیونکہ ان سے ملزمان تک رسائی ہو سکتی ہے۔‘

ہینڈلر کون ہے؟

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ قتل میں لیاری گینگ وار کے ملزمان کو استعمال کیا گیا جن میں سے کچھ ملزم پڑوسی ملک فرار ہو گئے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ کراچی، ایم کیو ایک کے کارکنوں اور علی رضا عابدی کے خاندان کے لیے یہ سامنے آنا بہت ضروری ہے کہ کس کی ایما پر یہ قتل ہوا اور کس نے سپاری دی۔

فیصل سبزواری نے یہ بھی کہا کہ ’ہم وفاقی حکومت کے اتحادی ہیں اور ان سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں وہ اس میں اپنا کردار ادا کرے۔‘

کاؤنٹر ٹیررازم محکمے نے عدالت میں ملزمان کا کال ڈیٹا ریکارڈ بھی جمع کرایا ہے جس میں ملزمان نے کب، کس کو، کہاں کال کی اور ان کالز کا دورانیہ کیا تھا، سب تفصیلات موجود ہیں۔

اس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ غزالی، مصطفیٰ عرف کالی چرن اور فاروق کو پاکستان چوک کے قریب واقع ایک عمارت سے متعدد کالیں کی گئیں۔

عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ اس سی ڈی آر رپورٹ کی متعلقہ محکموں سے تصدیق کرائی جائے۔

اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ سی ڈی آر کے مطابق ملزمان کی علی رضا عابدی کی فیکٹری، سیون سیز اور گھر کے باہر موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے اس کے علاوہ وہ ان کے ہینڈلر کے ساتھ بھی رابطے میں رہے ہیں اور جنھوں نے رضا کو قتل کروایا، ان سے بھی ان کا رابطہ ہے۔ سی ڈی آر میں وہ ٹیلیفون نمبر بھی نظر آرہے ہیں ’جن کے نمبر پہچانے نہیں جاتے۔‘

اخلاق عابدی کہتے ہیں کہ باقی جو چار ملزمان ہیں جن کو مفرور دکھایا گیا ہے، اس بارے میں جب تفتیشی افسر سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ ’سر پکڑے ہوئے لوگوں کو کیا پکڑوں، اب اس کا کیا مطلب ہے۔‘

’چھوٹا بیٹا بھی پاکستان نہیں آیا‘

علی رضا عابدی کی ہلاکت کے بعد ان کی بیگم اور بچے ملک چھوڑ گئے۔ اخلاق عابدی کہتے ہیں کہ ان کا پورا خاندان بکھر گیا۔

’میرا ایک اور بیٹا امریکہ میں رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے جس ملک میں بھائی کو مار دیا گیا ہو اور جس طرح سے مارا گیا ایسے ملک میں نہیں آ سکتا۔ انھوں (قاتلوں) نے تو ہمارا پورا گھر تباہ کردیا۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ملک کے قانون میں رہتے ہوئے کوئی راستہ نکلے اور جو لوگ بھی اس میں ملوث ہیں ان کا ٹرائل ہو۔‘

یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت انسداد دہشت گردی عدالت نے روزانہ اس مقدمے کی سماعت کرنی ہے اور سات روز کے اندر فیصلہ سنانا ہے تاہم اس کے برعکس علی رضا عابدی کے قتل کو آج تین سال ہو چکے ہیں لیکن اخلاق عابدی کے مطابق حتمی دلائل ابھی بھی ہونا باقی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں