10

امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے جاری

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے/رائٹرز/اے پی) جمعرات کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (یو سی ایل اے) میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے احتجاجی رکاوٹیں توڑتے ہوئے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ امریکہ کی درجنوں یونیورسٹیوں میں اسرائیل کی غزہ پر بمباری کے خلاف مظاہرے ہوئے اور اب ‘یو سی ایل اے‘ مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران کم از کم 30 امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر یونیورسٹیوں میں طلبہ نے احتجاجی خیمے لگائے، جنہیں پولیس کی مدد سے ختم کیا گیا۔ پولیس نے بدھ کے روز یونیورسٹی آف ٹیکساس میں ایک احتجاجی کیمپ کو ختم کیا، جہاں ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

اسی طرح پولیس اہلکاروں نےآج جمعرات دو مئی کو نیو یارک کی فورڈہم یونیورسٹی میں بھی کئی مظاہرین کو حراست میں لیتے ہوئے ایک اسکول کی عمارت کے اندر قائم احتجاجی کیمپ کو ختم کیا۔

مظاہرین نے میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بھی مرکزی کیمپس کے قریب کھدائی کرتے ہوئے، اس وقت راستہ بلاک کیا، جب سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد اپنے عروج پر ہوتی ہے۔

پولیس نے یونیورسٹی آف ٹیکساس ڈیلاس میں بھی ایک کیمپ کو ہٹایا اور کم از کم 17 افراد کو ”مجرمانہ خلاف ورزی‘‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

بدھ کی رات پولیس نے کولمبیا یونیورسٹی اور سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک میں بھی طلبہ کے احتجاجی کیمپ کو ختم کیا۔ وہاں کچھ طلبہ کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ پولیس نے کہا کہ کولمبیا اور نیو یارک یونیورسٹی میں تقریباً 300 گرفتاریاں کی گئی ہیں۔

امریکی جامعات میں شروع ہونے والے ان مظاہروں نے یونیورسٹی منتظمین کو بھی ایک مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ یونیورسٹیوں کے منتظمین مجرمانہ سرگرمیوں، یہود دشمنی اور نفرت انگیز تقاریر کی شکایات کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار رائے کے حقوق کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسرائیل کی غزہ میں کارروائیاں جاری

دریں اثنا اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ٹیلی گرام پر لکھا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ میں ”دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور آپریشنل سرنگوں‘‘ کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیل نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اگر کوئی جنگ بندی معاہدہ اور قیدیوں کا تبادلہ نہ ہوا تو وہ جلد ہی رفح میں متنازعہ جنگی آپریشن شروع کر دے گا۔

غزہ کی جنگ کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر حملہ کرتے ہوئے 12 سو کے قریب افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

اسرائیل نے اس کا جواب بڑے پیمانے پر فضائی حملوں اور زمینی کارروائی سے دیا تھا۔ اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں زیادہ تر عام شہریوں کی ہلاکتوں اور غزہ پٹی میں تباہ کن صورتحال کے پیش نظر اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔

غزہ پٹی میں حماس کے زیر کنٹرول وزارت صحت کے مطابقجنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں اب تک 34,596 افراد ہلاک اور 77,800 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

دوسری جانب حماس نے امن مذاکرات کے لیے مصر میں ایک وفد بھیجنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے مصر، قطر اور امریکہ کی کوشش ہے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین کوئی جنگ بندی معاہدہ طے پا جائے لیکن دونوں فریق اپنی اپنی شرائط پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

غزہ کی تعمیرنو میں 80 برس لگ سکتے ہیں، یو این
اقوام متحدہ کی جمعرات کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اگر غزہ میں تباہ ہونے والے گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اسی رفتار سے ہوئی، جیسے ماضی کی جنگوں کے بعد کی گئی تھی تو غزہ پٹی کے گھروں کی تعمیر میں 80 برس لگ سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تعمیر نو کا کام اگلی صدی میں بھی جاری رہے گا۔

اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی بمباری کی وجہ سے غزہ میں 80 ہزار گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق جنگ سے تباہ حال غزہ کی تعمیر نو پر 30 بلین ڈالر سے لے کر 40 بلین ڈالر لاگت آئے گی اور اس پیمانے پر کوششوں کی ضرورت ہے، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا نے نہیں دیکھیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں