11

سندھ میں دہشت گردی میں ملوث مدارس کے اساتذہ کی مانیٹرنگ شروع

کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) سندھ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبے بھر کے دینی مدارس کے اساتذہ کی مانیٹرنگ کا نظام قائم کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ کراچی پولیس آفس (کے پی او) حملے کی تحقیقات سامنے آنے کے بعد کیا گیا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت سول اور فوجی قیادت پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ گزشتہ سال فروری میں کراچی پولیس کے مرکزی دفتر پر حملے میں ہلاک ہونے والا ایک ‘دہشت گرد’ دینی مدرسے میں استاد تھا جو اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مارا گیا تھا۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ ہلاک ‘دہشت گرد’ کے فنگر پرنٹس اور دیگر تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے۔

سندھ کی کابینہ میں سینئر وزیر اور صوبائی وزیرِ اطلاعات شرجیل انعام میمن کا میڈیا ٹاک میں کہنا تھا کہ حکومت کے لیے یہ بات پریشان کن ہے کہ مدرسے کے معصوم بچوں کو پڑھانے والا استاد ‘دہشت گردی’ کے حملے میں ملوث نکلا۔

انہوں نے کہا کہ سوچنے کی بات ہے استاد اپنے طلبہ کو کس قسم کی تعلیم دے رہا ہوگا۔ اسی بنا پر اجلاس کے شرکا نے حیرت اور تشویش کا بھی اظہار کیا۔

شرجیل میمن کے بقول ایسے لوگ یونیورسٹیز میں ہوں یا کالجز میں، ان عناصر کی نہ صرف مانیٹرنگ کی جائے گی بلکہ ان کے عزائم کو ناکام بھی بنایا جائے گا اور ان کے خلاف ایکشن ہو گا۔

البتہ شرجیل میمن نے یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ حملے میں ملوث ملزم کس مدرسے میں استاد تھا۔

واضح رہے کہ فروری 2023 میں کراچی پولیس آفس پر حملے میں تین حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے گھنٹوں تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد ہلاک کردیا تھا۔ اس واقعے میں سیکیورٹی فورسز کے تین اہلکار اور ایک شہری بھی مارا گیا تھا جب کہ 18 افراد زخمی ہوئے تھے۔

واقعے کے دو ہفتوں بعد حکومت نے اس کے کارروائی کے ماسٹر مائنڈز کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے اور دو ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

یہ پہلا موقع نہیں جب مدارس سے تعلق رکھنے والے افراد کا نام ملک میں دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس میں سامنے آیا ہو۔ بعض تحقیقی رپورٹس میں مدارس کو انتہا پسندی کے فروغ کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔

ماضی میں بھی مختلف مدارس سے تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ کے کالعدم تنظیموں میں شامل ہو کر یا انفرادی طور پر عسکریت پسندی کی مختلف وارداتوں میں ملوث ہونے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ سیکیورٹی اداروں نے بھی متعدد بار مدارس میں چھاپے مار کر مطلوب افراد کو گرفتار کیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں دیو بند مکتبۂ فکر کے بڑے دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ ماضی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ’جہاد‘ سے بھی وابستہ رہے ہیں۔

افغان طالبان اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ارکان اور قیادت میں ایک بڑی تعداد دیوبند مکتبِ فکر کے مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی ہے۔

دینی حلقے مدارس کے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور اسے مدارس کے خلاف من گھڑت پروپیگینڈا قرار دیتے ہیں۔

‘مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں’

جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی میں بڑی دینی درس گاہوں میں سے ایک ہے اور اس میں غیر ملکیوں سمیت ہزاروں طلبہ زیرِ تعلیم ہے۔ اسی جامعہ کے مہتمم مفتی نعمان نعیم مدارس کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں اور انہیں قابلِ مذمت سمجھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی نعمان نعیم نے کہا کہ مدارس اور اس کے طلبہ کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے نہ ہی وہ اسے اچھا سمجھتے ہیں۔

مفتی نعمان نعیم کہتے ہیں کہ مدارس خالصتاً تعلیمی ادارے ہیں اور ان اداروں کی ایسی کوئی پالیسی نہیں، نہ ہی یہ وہاں حاصل کی گئی تعلیم کا شاخسانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے بہت سے ایسے افراد کو بھی گرفتار کیا ہے جو یونیورسٹیز اور کالجز سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ پبلک یونیورسٹیز میں بچوں کو انتہا پسندی کی تعلیم دی جارہی ہے۔

مفتی نعمان نعیم کے مطابق اگر مدرسے کا کوئی طالبِ علم یا استاد واقعی دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہو تو اسے قانون کے مطابق اور ثبوتوں کی روشنی میں جو سزا بنتی ہے دی جائے۔ لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ دہشت گردی کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ مدارس ایسے خیالات کی نہ صرف نفی کرتے ہیں بلکہ اس جانب ترغیب دینے کو بھی غلط سمجھتے ہیں۔

‘دہشت گردی کی تمام تر کارروائیاں اسلام اور پاکستان کے خلاف ہیں’

دوسری جانب چیئرمین پاکستان علما کونسل حافظ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ پاکستان، بھارت، افغانستان، بنگلہ دیش میں بڑی تعداد میں طلبہ مدارس میں پڑھتے ہیں۔ صرف پاکستان ہی میں ان طلبہ کی تعداد 30 لاکھ کے قریب ہے جب کہ مدارس کی تعداد بھی 30 ہزار سے زائد ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف ایک واقعے کو بنیاد بنا کر تمام مدارس کو یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ مدارس ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔

ان کے خیال میں اب پاکستان کے کسی مدرسے میں اس طرح کی شکایات یا صورتِ حال نہیں ہے اور اگر کہیں ایسا ہوا ہے تو اس کی مکمل تحقیقات کرکے اصل حقائق کو منظرِ عام پر لایا جانا چاہیے۔

حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و امان کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر قتل، چوری، ڈکیتی اور اس طرح کے دیگر جرائم رپورٹ ہوتے ہیں۔ کیا یہ سب جرائم کرنے والے مدارس کی پیداوار یا مدارس سے وابستہ ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیچھے معاشی اور معاشرتی اسباب تلاش کرنے ہوں گے اور اس میں تعلیمی اداروں کو قصور وار ٹھہرانا نا انصافی ہوگی۔

طاہر اشرفی کے بقول دہشت گردی کے خلاف پاکستان علما کونسل جس میں ملک کے نامور علما شامل ہیں، ان کا متفقہ فتویٰ موجود ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی کی تمام تر کارروائیاں اسلام اور پاکستان کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی انفرادی عمل کرتا ہے تو اس کی سزا قانون کے مطابق دی جائے۔

‘دوستیوں اور رجحانات کی بنیاد پر کچھ لوگ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں’

کراچی میں مقیم صحافی فیض اللہ خان کا کہنا ہے کہ وفاق المدارس کے مطابق ان کے نصاب میں انتہا پسندی سے متعلق کوئی ایسی چیز نہیں۔ مدارس میں اساتذہ نصاب سے ہٹ کر کوئی بیان بھی نہیں دے سکتے۔ البتہ ذاتی دوستیوں اور رجحانات کی بنیاد پر کچھ لوگ انتہا پسندی کی طرف ضرور مائل ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مدارس میں ایسے کئی طلبہ و اساتذہ کا اخراج بھی ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دیو بند مکتبۂ فکر کے مدارس میں افغان طالبان کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور پاکستان کے بعض مدارس جیسے اکوڑہ خٹک اور جامعۃ الرشید کے سربراہان ماضی میں افغان طالبان کی ماضی کی حکومت کے حامی رہے ہیں۔

فیض اللہ خان کا کہنا تھا کہ ان مدارس سے وابستہ کئی طلبہ و اساتذہ افغانستان بھی جاتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سویت دور میں مفتی تقی عثمانی بھی افغانستان گئے اور اس بارے میں کتاب بھی لکھی۔ اسی طرح جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے مفتی نظام الدین شامزئی افغان طالبان سے بہت قربت رکھتے تھے۔

صحافی فیض اللہ کے بقول کئی افغان شہری ان مدارس میں طالبِ علم بھی رہے جو افغان طالبان کا بھی حصہ تھے۔ لیکن نائن الیون کے بعد مدارس نے اس معاملے میں مزید سختی کی۔ انتظامی طور پر معاملات بہتر کیے اور پیغامِ پاکستان کے نام سے انتہا پسندی کے خلاف باقاعدہ فتویٰ بھی جاری کیا جس میں دہشت گردی میں ملوث عناصر کی سخت مذمت کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات اب کافی حد تک واضح ہوچکی ہے کہ انتہا پسندی کا معاملہ صرف مدارس سے منسلک نہیں بلکہ پاکستان کی مختلف جامعات سے بھی کئی طلبہ کو انتہا پسندی یا دہشت گردی کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر معاشرے میں انتہا پسندی کے رجحانات بڑھے ہیں جس کی وجہ سے سب طبقات متاثر ہوئے ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں