اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے توہین رسالت اور حضرت عیسیٰ کی توہین کے الزام میں ابتسام المصطفٰی نامی شخص کو سزائے موت سنا دی ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پچھلے پانچ سال کے دوران تیسری مرتبہ اس مجرم کو کی سزا میں اضافہ کرتے ہوئے موت کی سزا سنائی ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی کے فاضل جج ملک اعجاز آصف نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر پر ابتسام المصطفیٰ کو سزائے موت سنائی ہے۔
اس کیس میں مجرم کو مقدمے میں شامل دیگر دفعات کے تحت مجموعی طور پر 87 برس سے زائد قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔
اس کیس میں مدعی محمد سعید نے راول پنڈی ایف آئی اے میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے ابتسام المصطفیٰ کے حوالے سے مختلف سوشل میڈیا پیجز کے ساتھ درخواست دائر کیتھی کہ وہ توہین رسالت، توہین قرآن اور توہین انبیا سمیت مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔
ملزم ابتسام المصطفیٰ کو جن کا تعلق تلہ گنگ سے ہے۔، سال 2018 میں ایف آئی اے نے گرفتار کیا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ان کا چالان پیش کیا گیا جہاں سنہ 2019 میں انہیں دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اس پر مدعی مقدمہ محمد سعید نے ملزم کو دی گئی سزا کو بڑھانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں اپیل دائر کی تھی۔ جس پر لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی کو مذکورہ مجرم کے خلاف تمام شہادتیں دوبارہ ریکارڈ کر کے دوبارہ فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر دوبارہ ٹرائل کے بعد مذکورہ مجرم کو 17 جولائی 2021 کو انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی کے فاضل جج شوکت کمال ڈار نے جرائم کا مرتکب ہونے پر اس سے قبل دس سال قید کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔
تاہم مدعی محمد سعید نے ابتسام المصطفیٰ کی سزا کو عمر قید سے بڑھا کر سزائے موت کرنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں ایک دفعہ پھر اپیل دائر کی اور موقف اختیار کیا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت اس جرم کے مرتکب مجرم کو عمر قید کی سزا نہیں سنائی جا سکتی اور جرم ثابت ہونے پر صرف سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی کو ایک بار پھر مجرم کے خلاف تمام شہادتیں دوبارہ ریکارڈ کر کے فیصلہ سنانے کا حکم دیا اور جمعرات کے روز انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی نے ابتسام المصطفیٰ کے خلاف مقدمے کا تیسری دفعہ فیصلہ سناتے ہوئے اس کی عمر قید کی سزا کو موت کی سزا میں تبدیل کر دیا ہے۔
ابتسام المصطفیٰ کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیے جانے اور سزا دینے پر ان کا نام یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں بھی شامل ہے۔
اس بارے میں دفاع کا موقف لینے کے لیے ابتسام المصطفیٰ کے وکیل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
اس کیس میں مدعی محمد سعید کے وکیل راجہ عمران خلیل ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجرم ابتسام المصطفیٰ کے خلاف ٹھوس شواہد موجود تھے۔ انہوں نے 50 سے زائد ای میل اکاؤنٹس کے ذریعے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد ڈالا ہوا تھا۔ جس میں اس کتاب کا مواد بھی شامل تھا جس کی وجہ سے راجپال قتل ہوا تھا۔
راجہ عمران خلیل ایڈوکیٹ نے کہا کہ ابتسام المصطفیٰ نے توہین رسالت کے ساتھ ساتھ توہین انبیا اور توہین قرآن بھی کی تھی جس کی وجہ سے ان کے خلاف تمام تر دفعات مقدمہ میں موجود تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں سزائے موت کے ساتھ ساتھ مختلف دفعات کے تحت 87 سال قید اور ایک لاکھ روپیہ جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توہین مذہب کے الزامات میں ایک خاتون سمیت 22 افراد کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے جن میں سے دو افراد کی سزا کی توثیق ہائی کورٹ نے بھی کر دی ہے لیکن اب تک کسی بھی شخص کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
وائس آف امریکہ نے ابتسام المصطفیٰ کے اہل خانہ سے بھی رابطہ کی کوشش کی۔ تاہم ان کے علاقہ کی لوگوں نے بتایا کہ ابتسام کی گرفتاری کے بعد خاندان کے بیشتر لوگ علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں اور اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتے۔