واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) رفح پر حملے کے بعد واشنگٹن نے اسرائیل کےلیے زیرزمین کنکریٹ کے مضبوط بنکروں کو تباہ کرنے والے بموں کی فراہمی روک دی ہے۔ اسرائیلی فوج ان بموں کو حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی جنگ میں استعمال کر رہی تھی جس سے غزہ کی پٹی میں بھاری پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور یہ تعداد اب 35 ہزار کو چھو رہی ہے۔
صدر بائیڈن نے 8 مئی کو سی این این نیوز چینل کو اپنے انٹرویو میں اسرائیل کو پہلی بار اعلانیہ خبردار کیا تھا کہ رفح پر اسرائیلی فورسز کے حملے کی صورت میں امریکہ اسے ہتھیاروں کی فراہمی روک دے گا کیونکہ اس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خطرہ ہے۔
اسرائیل طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا قریبی اتحادی اور سب سے زیادہ اسلحہ حاصل کرنے والا ملک ہے۔ اس کے بعد جرمنی، اٹلی، برطانیہ، کینیڈا اور کئی دوسرے ملک بھی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والوں میں شامل ہیں۔
اسرائیل حماس جنگ شروع ہونے اور بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں کے بعد اس سال کینیڈا اور نیدرلینڈز نے یہ کہتے ہوئے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روک ہے کہ غزہ کی پٹی میں ان کے ہتھیاروں کے استعمال سے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ جس سے شہری ہلاکتوں اور رہائشی علاقوں کی تباہی کا خدشہ ہے۔
بین الاقوامی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری اور زمینی حملوں سے زیادہ تر ہلاکتیں عام شہریوں کی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ وہ شہریوں کو نشانہ نہیں بناتا، بلکہ حماس کے عسکریت پسند اس جنگ میں عام شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ عسکریت پسند اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔
آئیے اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کون سے ملک اسرائیل کو کس قسم کے ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔
امریکہ
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو جن ہتھیاروں کی فراہمی معطل کی گئی ہے، ان میں 1800 سے 2000 پونڈ اور 1700 سے 500 پونڈ کے بم شامل ہیں جن کی مالیت کروڑوں ڈالر ہے۔
تاہم اسرائیل کے لیے اربوں ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار بدستور پائپ لائن میں ہیں جن میں ٹینکوں کے گولے شامل ہیں۔
ایک امریکی نیوز ویب سائٹ آکسی اوس(Axios) نے اپنی 9 مئی کی اشاعت میں بتایا ہے کہ وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے غزہ میں اسرائیل کے طرز عمل کے بارے میں کانگریس میں زیر التوا ایک تنقیدی رپور ٹ پر نتیجہ اخذ کرنے کا عمل روک دیا ہے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے امریکی ہتھیاروں کے استعمال کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے۔
سن 2016 میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ہتھیاروں کی فراہمی سے متعلق ایک دس سالہ سمجھوتے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکہ 2018 سے 2028 کی مدت میں اسرائیل کو 38 ارب ڈالر کی فوجی امداد، امریکی فوجی آلات کی خرید کے لیے 33 ارب ڈالر کی گرانٹ اور میزائل ڈیفنس سسٹم کے لیے 5 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔
اعداد وشمار کے مطابق 2019 سے 2023 کے دورن اسرائیل نے اپنی 69 فی صد فوجی خریداری امریکہ سے کی ہے۔
یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اسرائیل دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جسے امریکہ نے اپنے جدید ترین جنگی طیارے ایف۔ 35 فروخت کیے ہیں۔ اسرائیل نے 75 ایف۔35 خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جن میں سے 36 اسے مل چکے ہیں۔
امریکہ نے اسرائیل کو اس کے میزائل شکن نظام ’آئرن ڈوم‘ بنانے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔
جرمنی
امریکہ کے بعد اسرائیل کو سب سے زیادہ فوجی سازو سامان فراہم کرنے والا ملک جرمنی ہے۔ اس نے 2023 میں اسرائیل کو 35 کروڑ ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیار دیے جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تھے۔
ان میں سے زیادہ تر ہتھیار 7 اکتوبر کی جنگ شروع ہونے کے بعد اسرائیل کی درخواست پر فراہم کیے گئے۔
غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنقید کے بعد جرمنی نے محتاط رویہ اپنایا ہے اور اب اس نے اسرائیل کے لیے کم ہتھیاروں کی منظوری دی ہے۔
جرمنی کے خبررساں ادارے ڈی پی اے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی اسرائیل کو بنیادی طور پر فضائی دفاعی نظام اور مواصلاتی آلات فراہم کرتا ہے۔ تاہم اس نے اسرائیل کو تین ہزار ٹینک شکن ہتھیار اور پانچ لاکھ گولے بھی بھیجے ہیں۔
اٹلی
اٹلی اسرائیل کو فوجی ہتھیار فراہم کرنے والا تیسرا اہم ملک ہے، لیکن اٹلی کی وزارت خارجہ نے 9 مئی کو یہ تصدیق کی کہ ان کی حکومت نے غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہتھیاروں کی نئی برآمدات روک دی ہیں۔
اطالوی قانون کے مطابق ان ممالک کے لیے ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی ہے جو جنگ بھڑکانے میں اور اسے پھیلانے میں ملوث ہوں اور جو بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہوں۔
مارچ میں اٹلی کے وزیر دفاع گیڈو کروسیٹو نے کہا تھا کہ اسرائیل کو وہ ہتھیار برآمد کیے جا رہے ہیں جن کے معاہدوں پر پہلے سے دستخط ہو چکے ہیں لیکن ہتھیار یہ یقینی بنانے کے بعد بھیجے جا رہے ہیں کہ ان کا استعمال غزہ کے شہریوں کے خلاف نہیں ہو گا۔
برطانیہ
برطانیہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ملکوں میں شامل نہیں ہے۔ اور وہ اسرائیل کو براہ راست ہتھیار نہیں دیتا بلکہ کمپنیوں کو ہتھیار فروخت کرنے کے لائسنس دیتا ہے۔
پچھلے سال برطانیہ نے اسرائیل کو تقریباً سوا پانچ کروڑ ڈالر مالیت کے دفاعی سامان فروخت کرنے کے برآمدی لائسنس دیے تھے، جو زیادہ تر گولہ بارود، ڈرونز، طیاروں اور ہیلی کاپٹر کے پروزوں سے متعلق تھے۔