نئی دہلی + تہران + واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) بھارت نے ایران کے ساحلی شہر چابہار کی شہید بہشتی بندرگاہ کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے دس سالہ معاہدہ کیا ہے۔ تاہم امریکہ نے اس حوالے سے اپنی ممکنہ پابندیوں کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔
ایرانی شہر چابہار کی شہید بہشتی بندرگاہ کا نظم و نسق سنبھالنے سے متعلق نئی دہلی اور تہران کے درمیان ہونے والے معاہدے پر دستخط کرنے کے محض چند گھنٹوں بعد ہی امریکہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ”جو کوئی بھی ایران کے ساتھ کاروباری روابط اور سودے بازی پر غور کر رہا ہے، اسے واشنگٹن کی جانب سے پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ ہونا چاہیے۔
Hon’ble Minister @sarbanandsonwal MoPSW:” With the signature of this contract, we have laid the foundations of India’s long-term involvement at Chabahar” @MEAIndia pic.twitter.com/mMF8dqxKLt
— India in Iran (@India_in_Iran) May 13, 2024
یہ بیان ایک ایسے وقت آیا ہے، جب حال ہی میں اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد امریکہ نے تہران پر مزید نئی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے بھارت اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا، ”ہم ان رپورٹس سے آگاہ ہیں کہ ایران اور بھارت نے چابہار بندرگاہ سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ میں بھارتی حکومت کو ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ کے ساتھ ہی اپنے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے اہداف پر بات کرنے دوں گا۔”
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا، ”میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں، جیسا کہ اس کا تعلق امریکہ سے ہے، ایران پر امریکی پابندیاں برقرار ہیں اور ہم ان کا نفاذ جاری رکھیں گے۔”
جب ان سے مزید یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس کا مطلب بھارتی کمپنیوں کے خلاف پابندیاں بھی شامل ہیں، تو پٹیل نے کہا، ”عام طور پر آپ نے ہمیں کئی بار یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ کوئی بھی ادارہ، کوئی بھی شخص، جو ایران کے ساتھ کاروباری معاملات پر غور کر رہا ہے، انہیں اس ممکنہ خطرے سے بھی آگاہ ہونا چاہیے کہ وہ خود کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے کی جانب بھی کھینچ رہا ہے۔”
اس معاہدے سے بھارت کے مقاصد کیا ہیں؟
گزشتہ روز ایرانی دارالحکومت تہران میں شہری ترقی کے وزیر مہر داد بازرپاش اور جہاز رانی سے متعلق بھارتی وزیر سربندا سونووال نے اس نئے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
ایرانی وزیر نے اس موقع پر یہ بھی بتایا کہ بھارت چابہار منصوبے اور ایران کے روڈ ریل نیٹ ورک کے ذریعے افغانستان، ترکی، آذربائیجان، جارجیا اور شام جیسے وسطی ایشیا کے ممالک تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس موقع پر ایرانی وزیر بازرپاش نے بھارت اور ایران کے درمیان ایک مشترکہ شپنگ کمپنی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔
بھارتی وزیر سربندا سونووال نے اس معاہدے سے متعلق بعض تصاویر سوشل میڈیا ایکس پر شیئر کیں اور اسے دونوں ممالک کے تعلقات اور خطے کے لیے ایک ”تاریخی لمحہ” قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا، ”اس معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان صرف تعلقات ہی مضبوط نہیں ہوں گے، بلکہ یہ بھارتی نکتہ نظر سے عالمی سپلائی چین اور میری ٹائم سیکٹر میں قدم جمانے کے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔”
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ چونکہ بھارت پاکستان کے درمیان گزشتہ کئی برسوں سے تعلقات خراب رہے ہیں اس لیے وہ کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کو خاطر خواہ میں نہ لاتے ہوئے ایران کے جنوب مشرقی ساحل پر چابہار بندرگاہ کا ایک حصہ تیار کر رہا ہے۔
بھارت پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے چابہار کے راستے سے اپنا تجارتی ساز و سامان ایران، وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کو برآمد کرنا چاہتا ہے۔