اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھر کے باہر سے اغوا کیے گئے شاعر فرہاد علی شاہ کی بازیابی کی درخواست پر سیکریٹری دفاع سے رپورٹ طلب کی ہے۔
تحریری حکمنامے کے مطابق عدالت نے کہا کہ ’سیکٹر کمانڈر سے معلومات لے کر رپورٹ دیں۔ ’وزارت دفاع کا افسر پیر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’نامعلوم افراد کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ 24 گھنٹے میں سبق یاد کرا کے بھجوا دیتے ہیں اور بندہ آ کر کہتا ہے کہ ناران کاغان گیا تھا۔ جبری گمشدگیوں پر سزائے موت ہونی چاہیے۔
عدالت نے پولیس کو مغوی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ چیک کر کے بھی رائے قائم کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے شاعر فرہاد علی شاہ کی بازیابی کے لیے ان کی اہلیہ سیدہ عروج زینب کی درخواست پر سماعت کی۔ ایس ایس پی آپریشنز نے تفتیش میں پیش رفت سے آگاہ کیا کہ سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ ’جیو فینسنگ ہو گئی ہے، اس کی رپورٹ آنے میں کچھ ٹائم لگے گا۔ ملک بھر کے تمام آئی جیز کو اور تمام خفیہ اداروں کو بھی خطوط لکھے ہیں۔ پتہ چلا ہے کہ ایک بڑی گاڑی جو پیچھے سے اوپن تھی اس میں گھر کے باہر سے بٹھا کر لے جایا گیا۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ’بات ڈالے والی ہی ہے۔ عدم بازیابی پر سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع ذمہ دار ہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو وزیر اعظم کو بھی بلاؤں گا۔ اگر یہ اغوا کاروں کا تعین نہیں کریں گے تو گھر جائیں گے۔
’اگر بندہ بازیاب نہ ہوا تو سب کے خلاف کارروائی کے لیے لکھوں گا۔‘
ایس ایس پی آپریشنز نے مزید بتایا کہ سیف سٹی کیمروں کی کوریج نہیں تھی۔ ’سی سی ٹی وی فوٹیج سےعلاقے میں ایسی گاڑیوں کی موومنٹ چیک کی۔ رات ہونےکی وجہ سے نمبر پلیٹ نہیں پڑھی جارہیں۔ نمبرٹریس کرنے کے لیے ابھی بھی کام جاری ہے۔ سی ڈی آر پر بھی کام ہو رہا ہے۔‘
عدالت نے کہا ’جب آپ ان اداروں کو لکھتے ہیں تو کیا کوئی جواب آتا ہے؟ ہم نےکہا تھا کہ جہاں انوسٹیگیشن رُکے گی تو ہم سیکریٹری دفاع کو نوٹس کریں گے۔‘
ایس ایس پی نے کہا ’کبھی مثبت جواب نہیں آیا لیکن ابھی انوسٹی گیشن چل رہی ہے۔ موقع سے فنگر پرنٹس بھی لیے گئے ہیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ’میں آپ کو ابھی بتا دوں کہ فنگر پرنٹس نادرا ریکارڈ میں کسی سے میچ ہی نہیں کریں گے۔ کیا باقی لا اینڈ انفورسمنٹ ایجنسیز کو خط لکھنے سے معاملہ حل ہو جائے گا؟‘
ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا ’خفیہ ادارے کے حوالے سے ہم نے اپنی پٹیشن میں لکھا ہے۔ وہ شاعر کس طرح کی شاعری کرتے تھے اور کریٹیکل تھے۔ پولیس کو اس اینگل سے بھی تفتیش کرنی چاہیے۔ وہ اٹھائے گئے لوگوں سے متعلق بات کرتے تھے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’لاپتہ افراد پر بات کرنے کی وجہ سے وہ مسنگ ہیں۔ سارا دن ٹوئٹر، ٹک ٹاک پر لوگوں کی عزتیں اچھالی جا رہی ہیں۔ ایک آدمی کی وی لاگ پر باتیں بُری لگ جاتی ہیں تو اٹھا لیتے ہیں۔ اس سال اٹھائے گئے افراد کے حوالے سے جتنے بھی پرچے ہوئے ہیں کسی میں بھی ابھی تک تفتیش مکمل نہیں ہوئی۔ جتنے لوگ غائب ہوتے ہیں اس کا الزام ایک ہی ادارے پر کیوں جاتا ہے؟
’وقت آگیا ہے کہ سیکریٹری دفاع اور سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ یا تو یہ کہیں کہ را کے ایجنٹ آئے تھے اور اٹھا کر لے گئے ہیں یا یہ بتائیں کہ کسی نے تاوان کے لیے اغوا کیا۔ پیسوں کی خاطر اغوا کرنے والوں کے لیے سزا موت ہے۔ جبری گمشدگیوں کے جرم پر بھی سزائے موت ہونی چاہیے۔ نامعلوم افراد کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ 24 گھنٹے میں سبق یاد کرا کے بھجوا دیتے ہیں۔
’بندہ واپس آ کر کہتا ہے کہ ناران کاغان گیا تھا اور سب اسے کہتے ہیں کہ اب مت بولنا۔ ہمارا سسٹم ایسا بنا ہوا ہے کہ سب اغواکاروں کو ہی پروٹیکٹ کرتے ہیں۔ آج وہی لوگ مسنگ ہیں جو بات کرتے ہیں۔ وہ صحافی یا پولیٹیکل ایکٹیویسٹ ہیں، ایک صحافی کو اٹھا کر لے گئے۔ منسٹری آف انفارمیشن کیوں خاموش ہے؟‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’میں سیکرٹری دفاع اور سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی کو بلا رہا ہوں۔ اس کے بعد وزیراعظم کو طلب کروں گا۔‘
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے کہا کہ ’ابھی پولیس انوسٹی گیشن چل رہی ہے۔‘ جبکہ ایس ایس پی آپریشن نے کہا کہ ’کوششیں جاری ہیں۔‘
عدالت نے پولیس حکام کو مخاطب کر کے کہا ’آپ تو ابھی تک بالکل کلو لیس ہیں۔ یا تو آپ کہیں کہ کل بندہ بازیاب کرا لیں گے۔ آئی جی پولیس کو بھی بتایا تھا کہ اگر کوئی لاپتہ ہوگا تو ذمہ داری ان پر ہو گی۔
’ابھی آئی جی کو نہیں بلا رہا کیونکہ ابھی تک پولیس کی ناکامی نہیں ہے۔‘
کیس کی مزید سماعت 20 مئی تک ملتوی کی گئی ہے۔