بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سیمینار کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب کی تالابندی، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی مذمت

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ سیمینار کے موقع پر انتظامیہ کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کی مبینہ تالا بندی کے واقعے پر بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو آزادی صحافت پر حملہ اور آئین کے آرٹیکل 19 کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔

سینیچر کو کوئٹہ پریس کلب میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گوادر میں باڑ لگانے کے مبینہ اقدام کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا تھا جس کا موضوع ’گوادر کا باڑ میگا پروجیکٹ سے میگا پریزن تک‘ تھا۔

اس موقع پر انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر نہ صرف کوئٹہ پریس کلب کی تالا بندی کی گئی بلکہ اس کے احاطے اور تمام داخلی راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔ جبکہ پریس کلب کے سامنے پولیس کی بھاری نفری تعینات کرکے شارع عدالت اور پریس کلب کے بالمقابل رستم جی لین کو بھی بند کیا گیا تھا۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جاری اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ اس معاملے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کروائی جائے۔

سیمنار کے شرکا اور پریس کلب کے عہدیداروں کی جانب سے بتایا گیا کہ پریس کلب کے گیٹ پر شرکا اور پولیس میں دھکم پیل اور کشیدگی کے بعد پریس کلب کی گیٹ کو اندر سے پولیس اور مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر تالا لگا دیا تھا۔

پریس کلب کے جنرل سیکریٹری بنارس خان کا کہنا ہے کہ حکام کی جانب سے پریس کلب کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالا گیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کو سیمنار کرنے کی اجازت نہ دی جائے جس پر پریس کلب انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ کسی پر پابندی نہیں لگاسکتے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ میڈیا کو بھی اس تقریب کی کوریج نہ کرنے کا کہا گیا۔

جبکہ پولیس کے ایک سینیئر آفیسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سیمنار پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی سیمنار میں شرکت سے کسی کو روکا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی نفری کی موجودگی سیمنار کی سیکورٹی کے لیے تھی اور سیکورٹی کے انتظامات اس لیے کیے گئے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت اور پولیس کی جانب سے ہرممکن کوشش کی گئی کہ اس سیمنار کا انعقاد نہ ہو لیکن جب وہ اس میں ناکام رہے تو پولیس کے اہلکاروں نے پریس کلب کو اندر سے تالا لگادیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پریس کلب کو اندر سے بند کرنے کا کوئی جواز نہیں بتایا گیا اور ہمارے استفسار پر یہ بتایا گیا کہ انتظامیہ کی جانب سے آپ کو کانفرنس کے انعقاد کی اجازت نہیں ہے۔

اس سوال پر کہ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ گوادر میں باڑ لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے تو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ اگر باڑ نہیں لگائی جا رہی ہے تو گوادر میں طویل خندقیں کس لیے کھودی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ان خندقوں کے کھودنے پر گوادر کے عوام میں تشویش ہے اور انھوں نے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔

تاہم حکومت بلوچستان کے ترجمان اور گوادر انتظامیہ کی جانب سے گوادر میں باڑ لگاکر شہر کو بند کرنے کے تائثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا اس حوالے سے ایک بیان میں کہنا ہے کہ گوادر شہر کو باڑ لگانے کی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں اور سابق رکن بلوچستان اسمبلی اور ایک تنظیم کی جانب سے کیا گیا دعویٰ بے بنیاد ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں