واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے/اے ایف پی) واشنگٹن نے ایک جانب جہاں ہیلی کاپٹر حادثے میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے، وہیں وائٹ ہاؤس نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ان کے ہاتھ بہت سے لوگوں کے خون سے رنگے تھے۔
قومی سلامتی کونسل کے مشیر جان کربی نے پیر کے روز ایرانی صدر کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسے شخص تھے جن کے ہاتھ بہت سے لوگوں کے خون سے رنگے ہیں۔
کربی کا مزید کہنا تھا کہ لیکن ہمیں یقینی طور پر ایک حادثے میں ان کی جان جانے پر افسوس ہے اور ہم نے سرکاری طور پر ان کی ہلاکت پر تعزیت کی ہے۔
امریکہ نے پیر کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان اور ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہونے والے دیگر افراد کی موت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک بیان میں کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب ایران نئے صدر کا انتخاب کررہا ہے، ہم انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے ایرانی عوام کی جدوجہد کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔
ہیلی کاپٹر حادثے پر ایران نے امریکہ سے مدد مانگی ہے: ملر
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ ایران نے ہیلی کاپٹر کے حادثے میں صدر ابراہیم ریئسی کی ہلاکت کے بعد اس سلسلے میں مدد کی درخواست کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے یہ نہیں بتایا کہ ایران کی جانب سے کس طرح کی مدد کرنے کو کہا گیا ہے، کیونکہ ایران اور امریکہ کے درمیان اسلامی انقلاب کے بعد سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی روابط نہیں ہیں اور امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اس کے خلاف کئی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے صحافیوں سے کہا کہ میں کسی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن یہ بتانا چاہوں گا کہ ایرانی حکومت نے اس معاملے پر ہمیں مدد کے لیے کہا ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر لاجسٹک سے منسلک وجوہات کی بنا پر ہم کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔
ترجمان نے صحافیوں سے کہا کہ ریئسی ایران میں ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار تھے۔ اور وہ حماس سمیت کئی پراکسیوں کی مدد کرتے تھے۔
امریکہ کا الزام ہے کہ ایران حزب اللہ اور حماس سمیت مشرق وسطیٰ میں عسکری گروپوں کی مدد کرتا ہے اور وہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔
امریکی الزامات اور پابندیاں
سال 2019 میں اس وقت امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابراہیم رئیسی پر اس وجہ سے پابندی عائد کر دی تھی کہ ان کی انتظامی نگرانی میں ایسے افراد کو بھی پھانسی دی گئی تھی جو جرم کے ارتکاب کے وقت کم عمر تھے۔
اسی طرح اس وقت ایران میں قیدیوں کے ساتھ ایذا رسانی اور دیگر سخت سزائیں دینے کا عمل بھی عام تھا۔
جوڈیشری کے سربراہ کی حیثیت سے رئیسی ایسے نظام کے نگران تھے جس پر قیدیوں اور سرگرم کارکنوں کے خاندان طویل عرصے سے تنقید کرتے آ رہے ہیں کہ وہ دوہری شہریت رکھنے والوں کو اور ان افراد کو ہدف بناتا ہے جن کا مغرب کے ساتھ تعلق ہو اور وہ ان کو مذاکرات میں اپنی شرائط منوانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
ایران ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ عدالتوں کی طرف سے سزاؤں میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔