اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے مغوی شاعر احمد فرہاد کی بازیابی درخواست پر سماعت میں ایس پی آپریشنز کو سیکٹر کمانڈر بریگیڈئیر فہیم رضا کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیکٹر کمانڈر اگلی سماعت میں ذاتی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوں۔
مغوی شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت میں جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے ہیں کہ اب ایجنسیز کہیں چھپ کر نہیں بیٹھیں گی، ایجنسیز کا بھی ایک سٹرکچر ہو گا۔
دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ ’ہماری کورٹ میں آئندہ مسنگ پرسنز کی سماعت براہ راست نشر ہو گی۔ میں آرڈر کررہا ہوں آئندہ اس کیس کی لائیو کوریج ہوگی۔‘
دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ جج نے قانون دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ بندہ بازیاب کر لینا معاملہ کا حل نہیں ہے۔ اگلی تاریخ میں بتائیں کون سے قانون کے ذریعے ایجنسی ریگولیٹ ہوتی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’مسنگ پرسن کے کیس میں سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو کروڑ کروڑ روپے جرمانہ کیا تھا۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کسی عدالت نے دہشت گرد کو ضمانت دی ہو۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ’مسنگ پرسنز کے کیسز اب لارجر بینچ میں بھجوانے کا کہوں گا۔‘
ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے کہا کہ انٹیلی جنس بیورو پولیس کی معاونت کر رہی ہے، پولیس آئی بی سے ہی معاونت لیتی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر پولیس کو پتہ لگ جائے کہ بندہ کسی اور ایجنسی کی تحویل میں ہے تو پھر کیا میکنزم ہے؟ جس پر آئی جی پولیس نے بتایا کہ سیکرٹری داخلہ کے ذریعے سیکرٹری دفاع سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ پولیس سیکریٹری داخلہ کے ذریعے سیکریٹری دفاع کو شواہد دیتی ہے۔ پولیس پھر اس کیس کو جبری گمشدگی کا کیس قرار دے دیتی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آپ کی بات مجھے بڑی عجیب لگی کہ جب پتا چل جاتا ہے تو اسے جبری گمشدگی قرار دے دیتے ہیں۔
عدالت نے ایس پی آپریشنز کو سیکٹر کمانڈر بریگیڈئیرفہیم رضا کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ سیکٹر کمانڈر بریگیڈئیر فہیم رضا، ایم ائی کے سیکٹر کمانڈر جبکہ آئی بی کے ڈائریکٹر کو 29 مئی کی سماعت پر طلب کر لیا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیان نے کہا کہ ’میرا یہ ماننا ہے سکیٹر کمانڈر ایک ایس ایچ او کے برابر ہے۔‘
عدالت نے احمد فرہاد کی مبینہ جبری گمشدگی سے متعلق درخواست پر مزید سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ احمد فرہاد کی گمشدگی کی خبر گزشتہ جمعے کو منظر عام پر آئی تھی اور اس حوالے سے ان کی اہلیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ 17 مئی کو ان کے شوہر کسی کام کے سلسلے میں باہر گئے ہوئے تھے اور جب وہ گھر لوٹے اور گھنٹی بجائی تو اتنے میں کچھ نامعلوم افراد وہاں پہنچ گئے اور احمد فرہاد کو زبردستی اٹھا کر لے گئے۔
واضح رہے کہ احمد فرہاد کی گمشدگی کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ لوئی بھیر میں درج کیا گیا تھا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ریکور کرنا سٹیٹ کی مجبوری ہے ورنہ ریاست کی ناکامی ہے، ریاست کی ناکامی محض الفاظ ہیں، اس کے نتائج ہیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکرٹری دفاع کو پیش ہونے کا حکم دیا اور کہا کہ ’سیکریٹری دفاع پیش ہو کر ورکنگ سمجھائیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت دی کہ لاپتہ افراد کیس میں اب سیکٹر کمانڈر کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا، اور پولیس افسر ان کا بیان لے کر ضمنی لکھے گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’اب ایجنسیز کہیں چھپ کر نہیں بیٹھیں گی، یہ پولیس والے یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ کیونکہ یہ جوابدہ ہیں۔ کنگ کی شفافیت بہت ضروری ہے، امن و امان کی صورتحال خراب بھی ہوتی ہے۔ پولیس والے ماریں کھاتے ہیں، وردی بھی پھٹواتے ہیں۔اگر ادارے جوابدہ نا ہوں اور آپ انھیں جوابدہ بھی نا کر سکیں تو کیا ہو گا؟
محسن اختر کیانی نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ایجنسیز کا بھی ایک سٹرکچر ہو گا، کوئی کسی کو جوابدہ ہو گا۔ ہمیں سارے سوال سمجھنے اور اس ججمنٹ میں دینے ہیں، اب اس آدمی کا ریکور ہونا رہ گیا ہے، ہم کچھ چیزیں طے کریں گے۔‘
احمد فرہاد کی اہلیہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ہفتہ قبل بجلی اور اّٹے کی قیمتوں کے معاملے پر ان کے شوہر نے ذمہ داران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ان کے مطابق اس کے بعد 17 مئی کو ان کے شوہر کسی کام کے سلسلے میں باہر گئے ہوئے تھے اور جب وہ گھر لوٹے اور گھنٹی بجائی تو اتنے میں کچھ نامعلوم افراد وہاں پہنچ گئے اور احمد فرہاد کو زبردستی اٹھا کر لے گئے۔