دی ہیگ (ڈیلی اردو/بی بی سی) جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں جنگ کے دوران نسل کُشی کے الزامات اور رفح میں جارحیت کو ہنگامی بنیادوں پر روکنے کے معاملے میں عالمی عدالتِ انصاف نے جمعے کے روز اسرائیل کو کہا ہے کہ اسے رفح میں اپنی فوجی کارروائیاں فوری طور پر روکنا ہوں گی۔
نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے جمعے کے روز اسرائیل کو جو اہم احکامات جاری کیے گئے ہیں اُن میں رفح میں آپریشن فوری طور پر روکنے، مصر کی جانب رفح کی اہم راہداری کو انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کھولنا اور غزہ میں حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے تفتیش کاروں کو مکمل رسائی فراہم کرنا شامل ہے۔
عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے اسرائیل کو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر وہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کر کے عدالت کو اس بارے میں آگاہ کرے۔
عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے اسرائیل کو رفح میں فوری طور پر فوجی کارروائی روکنے کے حکم کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر کا کہنا تھا کہ ’دنیا کی کوئی طاقت ہمیں عوامی طور پر خودکشی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی کیونکہ حماس کے خلاف ہماری جنگ کا مطلب یہی ہے۔‘
دوسری جانب حماس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اسرائیلی کارروائیوں کے خاتمے کا مطالبہ صرف رفح کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے غزہ کے لیے ہونا چاہیے۔‘
عالمی عدالتِ انصاف کے موجودہ صدر جج نواف سلام نے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے جمع کروائی جانے والی درخواست پر سماعت کی۔
عالمی عدالتِ انصاف میں دورانِ سماعت جج سلام نے غزہ میں حماس کے زیرِ حراست اسرائیلی یرغمالیوں کی صورتحال کے بارے میں بھی بات کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’عدالت کو اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور اُن کی حفاظت پر گہری تشویش ہے اور عدالت ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتی ہے۔‘
عالمی عدالتِ انصاف کے جج کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ بہت پریشان کن لگتا ہے کہ بہت سے لوگ اب بھی قید میں ہیں۔‘
رفح کی سٹریٹجک اہمیت کیا ہے؟
یہ غزہ کی جنگ کا آخری محاذ ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے رفح میں ابھی تک ایک بہت ہی محدود اور محتاط آپریشن ہے اور تاحال رفح کراسنگ پر انتہائی بڑے پیمانے پر ہونے والا وہ زمینی حملہ نہیں جس کے بارے میں عالمی طاقتوں نے متنبہ کیا ہوا ہے۔
فلسطینی شہر رفح اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے آغاز سے ہی شہری آبادی کے لیے ایک پناہ گاہ اور انسانی امداد کے لیے داخلے کا مرکز رہا ہے۔
غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں واقع تقریباً 55 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط یہ علاقہ غزہ تک آخری رسائی کی نمائندگی سمجھا جاتا ہے اور اسرائیل کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث یہ کئی دہائیوں سے بیمار افراد تک امداد اور مسافروں کی آمدورفت کے لیے ایک راستہ رہا ہے۔
رفح موجودہ جنگ کے آغاز کے بعد 10 لاکھ سے زائد ان فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ بن گیا تھا جو اسرائیلی فوج کی بمباری اور زمینی حملے کی وجہ سے بے گھر ہوئے ہیں۔
موجودہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف شروع کیے گئے اچانک حملے سے ہوا جس میں اسرائیل کے دعوے کے مطابق تقریبا 1,200 اسرائیلی شہری ہلاک اور تقریباً 240 یرغمال بنا لیے گئے۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے جوابی حملے کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے رفح کی آبادی دو لاکھ 80 ہزار سے بڑھا کر تقریباً 14 لاکھ افراد تک پہنچا دی اور یہی وجہ ہے کہ اسے ناروے کی پناہ گزینوں کی کونسل کے سربراہ، جان ایجلینڈ نے ’بے گھر ہونے والوں کا دنیا کا سب سے بڑا کیمپ‘ قرار دیا ہے۔
تاہم جنگ سے پناہ لینے والوں کے لیے اس قصبے کی حیثیت پر اس وقت سوال اٹھنا شروع ہو گئے جب اسرائیل نے یہاں ایک آپریشن شروع کر دیا جس میں حماس کی جانب سے بنائے گئے دو اسرائیلی یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا جبکہ ان حملوں میں درجنوں فلسطینی مارے گئے۔
اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ رفح سے شہریوں کے انخلا کے لیے تیار رہیں، تاکہ وہاں ایک بڑا آپریشن شروع کیا جا سکے۔
اس اعلان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور اسرائیل کے منصوبے کے خلاف تنقید اور مخالفت کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوا۔ اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ اسرائیل کی کوئی کارروائی ’انسانی بحران اور تباہی‘ کا باعث بنے گی۔
یہ خدشات اس وقت مزید جڑ پکڑ گئے جب آئی ڈی ایف نے رفح میں تقریباً ایک لاکھ افراد کو شہر کے مشرق میں ایک علاقہ خالی کرنے اور خان یونس اور المواسی کی طرف جانے کی ہدایات کے ساتھ کتابچے بھی تقسیم کرنا شروع کر دیے۔
اس کے کچھ گھنٹوں بعد اسرائیلی فوج نے اس شہر کے ایک علاقے پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا جسے اس نے ’محدود آپریشن‘ کے طور پر پیش کیا اور اگلے ہی روز رفح اور مصر کے درمیان کراسنگ کا کنٹرول سنبھال لیا۔