یروشلم (ڈیلی اردو/بی بی سی) غزہ میں جنگ کئی محاذوں پر لڑی جا رہی ہے۔ ان میں سے ایک ’مدد‘ پہنچانے کی صورت میں بھی ہے۔
پہلے پہل کچھ اسرائیلی شہریوں کی جانب سے غزہ کے لیے امدادی سامان سے لدی گاڑیوں کے کریم شالوم کراسنگ سے داخل ہونے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
چند ہی مہینوں میں یہ لڑائی دوسرے علاقوں تک پھیل گئی، جہاں حریف گروپوں کے درمیان امداد کو روکنے اور اس کی غزہ تک فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور کوششیں جاری ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امداد لے کر جانے والی گاڑیوں کو روک کر لوٹ مار کی جا رہی ہے۔
دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن بشمول مقبوضہ غرب اردن میں رہائش پذیر یہودی آباد کاروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر درجنوں ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں۔
ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ امدادی ٹرکوں سے سامان کو زمین پر پھینک رہے ہیں۔ ایسا کرنے والوں میں کئی کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔
ایک کارکن کا کہنا تھا کہ ’اس امداد کو روکنا بہت ضروری ہے۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں اور یہی واحد طریقہ ہے جس سے ہم اپنے (7 اکتوبر 2023 کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر کیے گئے حملے میں) یرغمال بنائے جانے والے شہریوں کو واپس لا سکتے ہیں۔‘
کچھ کارکنان اس کے لیے یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ غزہ میں رہنے والوں کو اس وقت تک کچھ نہیں ملنا چاہیے جب تک اسرائیلی یرغمالی ان کے پاس ہیں اور امداد بھیجنے کا صاف مطلب اس جنگ کو طول دینا ہے۔
ایک ویڈیو میں اسرائیلی شہریوں کے ایک گروپ کو لوٹی جانے والی لاری کے اوپر جشن مناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک اور ویڈیو میں امداد لے جانے والی ایک لاری کو نذرِ آتش کیا جا رہا ہے۔
دیگر ویڈیوز میں یروشلم میں قانون کو ہاتھ لینے والے اسرائیلی گروپ امداد لے جانے والی گاڑیوں کو روک کر ڈرائیورز سے دستاویزات دکھانے کے مطالبات کر رہے ہیں تاکہ تسلی کی جا سکے کہ امداد غزہ تو نہیں جا رہی۔
ویڈیوز میں ان افراد کے چہرے صاف نظر آ رہے ہیں یعنی انھوں نے اپنے چہروں کو چھپانے کی کوشش نہیں کی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ یہ سب پوری آزادی کے ساتھ کر رہے تھے۔
حتیٰ کہ مقبوضہ غربِ اردن میں دو ایسے ڈرائیورز کو بھی گاڑیوں سے نکال کر مارا پیٹا گیا جو غزہ کے لیے سامان نہیں لے جا رہے تھے۔
فلسطینی ٹرک ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ وہ خوفزدہ ہیں۔
عادل امرو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں کراسنگ پوائنٹ پہنچنے سے خوفزدہ رہتا ہوں۔ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔‘
عادل امرو و تجارتی طور پر خریدا گیا سامان غربِ ادن سے غزہ لے کر جا رہے تھے جب ان پر حملہ کیا گیا۔
دیگر ڈرائیور جنھیں نشانہ بنایا گیا، وہ اردن سے امدادی سامان لے کر غزہ جا رہے تھے۔ غزہ تک امداد پہنچانے کے لیے انھیں غربِ اردن اور اسرائیل سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آباد کاروں کی جانب سے جارحیت کے خوف سے وہ اب مرکزی راستوں کی جگہ سائیڈ کی سڑکیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
لیکن اب کچھ اسرائیلی ان حملوں کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امن کے لیے کام کرنے والے یہ رضا کار سوشل میڈیا پر نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اہم کراسنگ پوائنٹس پر موجود رہیں۔
ترقوميا چوکی پر لاریاں جنوبی غربِ اردن سے اسرائیل میں داخل ہوتی ہیں۔ گروپ ’سٹینڈنگ ٹوگیدر‘ (Standing Together) کے ارکان باقاعدگی سے اب نگرانی کرتے ہیں۔
حالیہ حملوں میں ترقوميا کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
سُف پتیشی اس گروپ کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’غزہ کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور امداد غزہ پہنچنی چاہیے۔‘
قافلوں پر حالیہ حملوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیلی معاشرے کو بلند اور واضح الفاظ میں کہنا چاہیے کہ ہم ان کارروائیوں کے خلاف ہیں۔‘
’بھوک سے نہ مرنے کی خواہش کرنا بہت زیادہ تو نہیں۔‘
یہ گروپ اسرائیل بھر سے یہودیوں اور عرب شہریوں کو ایک جگہ جمع کرتا ہے۔
غزہ میں سات ماہ تک بے بسی سے جنگ کو دیکھنے کے بعد حیفا سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی عرب نصیر اودت فلسطینی شہر ترقوميا آ کر خود کو کارآمد محسوس کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں خود کو بہت با اختیار محسوس کرتا ہوں۔ اب میرے پاس مدد کرنے کے لیے کچھ ہے۔ ان لوگوں کی مدد کرنے کے لیے جو بھوک کا شکار ہیں۔‘
سورج کی تپش سے پچنے کے لیے جب رضا کار کھجور کے درختوں کے نیچے کھڑے تھے تو پاس سے گزرنے والی لاریوں کے ڈرائیوروں نے انھیں دیکھ کر ہاتھ لہرائے اور ہارن بجا کر شکریہ ادا کیا۔
دائیں بازو کے مظاہرین کا ایک چھوٹا سا گروپ بھی وہاں آیا لیکن ان کی تعداد پتیشی کے رضاکاروں کے مقابلے میں خاصی کم تھی۔
دونوں گروپس کی جانب سے اپنے مختلف موقف پر بحث کی گئی، جو گرما گرمی میں بدل گئی۔
اس دوران پولیس اہلکار پاس ہی کھڑے رہے تاکہ کسی کشیدگی کی صورت میں مخالفین کو منتشر کیا جا سکے۔
رضا کار پولیس پر الزام عائد کرتے ہیں کہ قومی سلامتی کے وزیر ایتامیر بن گویر (اسرائیلی وزیراعظم کی حکومت کے سخت گیر ممبر) کے زیر کنٹرول پولیس، حملوں کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کر رہی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ثبوت ہیں کہ آباد کار حکام سے مدد لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایسے ٹیکسٹ میسجز کی بھی نشاندہی کرتے ہیں جن کے مطابق یہ گروہ امداد لانے والی لاری پر حملے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اس کے لیے انھیں پولیس اور فوج کی مدد بھی حاصل ہے۔
پتیشی کہتے ہیں کہ ’بہت بار ایسا ہوا کہ جب یہ حملے ہوئے تو پولیس علاقے میں ہی موجود تھی لیکن کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو حملہ آوروں کو روک سکتا۔ یہ بہت افسوس ناک ہے کیونکہ پولیس کو امن و امان برقرار رکھنا چاہیے۔‘
جب لاریاں وہاں سے گزریں تو دو جوان خواتین نے اسرائیلی جھنڈا لہرایا۔
ان دونوں خواتین ایریل اور شریا (اصل نام ظاہر نہیں کیا جا رہا) نے بتایا کہ وہ کیوں ایسا محسوس کرتی ہیں کہ ان کا وہاں ہونا ضروری ہے۔
ایریل کہتی ہیں کہ ’ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہمیں ٹریفک کو بلاک نہ کرنا پڑے۔‘
’مجھے چیزوں کو نقصان پہنچانا پسند نہیں۔ یہ میرا مشغلہ نہیں لیکن اپنے دوستوں اور خاندان کی موت کے مقابلے میں ہم ایسا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
دونوں خواتین اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ غزہ میں بھوک ہو سکتی ہے لیکن ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ حماس امداد ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اس کو چوری کر کے ذخیرہ کر رہا ہے۔
انھیں اس بات کی بھی فکر نہیں کہ امداد لانے والی لاریوں کو روک کر، اس میں موجود سامان کو نقصان پہنچا کر یا آگ لگا کر وہ دنیا میں اسرائیل کی کس قسم کی تصویر کشی کر رہی ہیں۔
شریا کہتی ہیں کہ ’ہمیں اس بات کی فکر کرنا چھوڑنی ہو گی کہ لوگ کیا سوچتے ہیں اور وہ کرنا ہو گا جو میری اور میرے خاندان کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے۔‘
جہاں تک پولیس کی بات ہے تو ایریل اس کی تردید کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پولیس اس وقت تک مداخلت نہیں کرے گی جب تک انھیں اس بات کا یقین نہیں ہو جاتا کہ وہ اسے بند کر سکتے ہیں۔ وہ کوئی ایسا کام شروع نہیں کریں گے جو وہ ختم نہیں کر سکتے۔‘