نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) افغانستان کے صوبے غزنی میں ابھی دھویں کے سیاہ بادل چھٹے ہی نہیں تھے کہ بارودی سرنگ (مائن) کی وجہ سے بننے والے گڑھے کے کنارے بچے جمع ہوگئے تھے۔ افغانستان میں اس طرح کی ڈیوائسز ہر دوسرے دن ایک بچے کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں۔
یہ ٹینک شکن مائن غزنی کے جنوب میں واقع قچ قلعہ گاؤں سے 100 میٹر کے فاصلے پر موجود تھی۔
سال 2021 میں طالبان کی جانب سے افغانستان میں مغرب نواز حکومت اور اپنی شورش ختم کرنے کے بعد اگرچہ افغان شہری کھیتوں، کھلے حصوں، اسکولوں میں جا سکتے اور سڑکوں پر چل پھر سکتے ہیں۔
لیکن اس نئی آزادی کی تحریک کے ساتھ ہی 40 سال تک یکے بعد دیگرے جاری رہنے والے تنازعات کی باقیات اب بھی ان کے لیے ایک خطرہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2023 سے اپریل 2024 تک افغانستان میں باقی رہ جانے والے گولہ بارود سے تقریباً 900 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بچے ہیں۔
برطانوی تنظیم ہالو ٹرسٹ کے بارودی سرنگوں کو صاف کرنے والے ‘ڈی مائنرز’ نے اس مائن کا پتا لگایا اور پھر اسے کلیئر کیا۔
اس دوران ہونے والے دھماکے کی آوازیں تقریباً تین کلو میٹرز تک سنی گئیں۔
لیکن اس سے قبل کہ اس مائن کو ناکارہ بنایا جاتا۔ طالبان کا ایک رکن ان ڈی مائنرز کے پاس آیا اور کہا کہ یہ مائن اسے دے دی جائے۔
طالبان اہلکار نے کہا کہ وہ اسے گھر میں محفوظ رکھیں گے اور اگر افغانستان پر دوبارہ قبضہ ہوا تو ہم اسے بعد میں استعمال کرسکتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ مائن اتنی خطرناک نہیں ہو سکتی کیوں کہ یہ برسوں سے پھٹی نہیں ہے۔ تاہم انہیں ڈی مائنرز کی جانب سے پیچھے دھکیل دیا گیا۔
اقوامِ متحدہ کے افغانستان میں مشن (یوناما) کے مائن ایکشن سیکشن کے سربراہ نک پونڈ کہتے ہیں کہ طالبان حکومت افغانستان میں ڈی مائننگ یعنی بارودی سرنگوں کی صفائی میں بہت معاون ہے اور جتنا ممکن ہو سکے وہ اس کی کلیئرنس چاہتی ہے۔
افغانستان میں بارودی سرنگوں کا صفایا یعنی ڈی مائننگ کا آغاز 1988 کے شروع میں ہوا تھا۔ لیکن دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگوں نے اس ملک میں مائنز اور آرڈیننس یعنی گولہ بارود کو دوبارہ سے بڑھا دیا۔
خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق نک پونڈ نے کہا کہ اس وقت یہ پیش گوئی کرنا لگ بھگ نا ممکن ہے کہ اس خطرناک مواد کی موجودگی کا کیا پیمانہ ہے۔
جنوری 2023 سے ہتھیاروں کی باقیات سے ہلاک یا زخمی ہونے والوں میں 82 فی صد بچے تھے۔ ان کیسز میں سے آدھے سے کیسز بچوں کے کھیلنے کے دوران پیش آئے۔
افغانستان کے ہی نوکردک گاؤں میں اپریل کے آخر میں دو بچے اسی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔
اپنے 14 سالہ بیٹے جاوید کو کھونے والے شاوو کہتے ہیں کہ کس طرح ایک بارودی سرنگ کی وجہ سے ان کے بیٹے کی جان چلی گئی۔
ان کے بقول جاوید نے نہ پھٹے ہوئے آرڈیننس کو پہلے ایک پتھر، پھر دوسرے اور اس کے بعد تیسرے پر مارا جس کے بعد یہ ڈیوائس دھماکے سے پھٹ گئی۔
دھماکے سے جاوید فوری طور پر ہلاک ہوگیا۔
اس واقعے میں 14 سالہ جاوید کا ہم عمر دوست سخی داد بھی ہلاک ہوا۔
سخی داد کے 18 سالہ بھائی محمد ذاکر کا کہنا ہے کہ لوگوں کے مطابق یہاں آس پاس دھماکہ خیز مواد موجود ہے۔ لیکن اس گاؤں میں پہلے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
ان کے بقول گاؤں میں کوئی بھی نہیں آیا جو بچوں کو اس خطرے سے خبردار کرتا۔
پچاس کلومیٹر فاصلے پر ایک اور گاؤں پتانائے کے 13 سالہ سید بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ وہ ہاتھ پاؤس سے زخمی ہوئے ہیں۔
اپریل کے آخر میں وہ اپنے بھائی کے ساتھ بھیڑوں کو چرانے کے دوران دھماکے میں زخمی ہوئے۔ واقعے میں ان کا 11 سالہ بھائی طہٰ ہلاک ہوگیا۔
‘اے ایف پی’ سے گفتگو کرتے ہوئے سید نے بتایا کہ انہوں نے تین، چار مرتبہ ڈیوائس کو بھائی کے ہاتھ سے نیچے پھینکا۔ وہ بھائی پر چیخے لیکن طہٰ نے لات ماری اور ڈیوائس کو پتھر پر دے مارا۔
سید کے والد سراج احمد کہتے ہیں کہ اس طرح کے حادثات بہت عام ہیں۔ کل کسی اور کا بیٹا مر سکتا ہے یا پوری زندگی کے لیے معذور ہو سکتا ہے۔
ادھر برطانوی تنظیم ہالو میں دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والے افسر زبتو مایر کہتے ہیں کہ “فنڈز کی کمی” ان کے کام میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ لہٰذا ڈی مائنرز چندے پر انحصار کرتے ہیں اور بڑی محنت سے پلاٹ بائی پلاٹ کام کرتے ہیں۔
یوناما کے مائن ایکشن سیکشن کے سربراہ نک پونڈ کے مطابق 2011 میں مائن ایکشن ورک فورس کی تعداد ایک وقت میں ساڑھے 15 ہزار کے قریب تھی جو اب 3000 رہ گئی ہے۔
لیکن فنڈنگ ختم ہونے کی وجہ دیگر عالمی تنازعات ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے عطیہ دینے والے بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ طالبان کے اقتدار کو لگ بھگ تین سال ہونے کو ہیں لیکن کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
دیہہ قاضی حملت کے ایک چھوٹے سے اسکول کے ہیڈ ماسٹرز محمد حسن انہی ڈی مائنرز پر اعتماد کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بچوں کے لیے اسکول کا صحن تک خطرناک ہے کیوں کہ یہ بارودی سرنگوں سے صاف نہیں ہو سکا ہے۔
ان کے بقول ہم یہاں درخت تک نہیں لگا سکتے۔ اگر ہم کھدائی کرتے ہیں، یہاں کام کرنے کے لیے ٹریکٹر یا مشینیں لاتے ہیں تو یہ واقعی خطرناک ہے۔
اسکول کے ایک کلاس روم میں بچوں کو اس طرح کے حادثات سے متعلق ایک سبق بھی سنایا گیا جب کہ اسی کمرے کی دیوار پر ایک چارٹ بنا ہوا تھا جس میں بارودی سرنگوں یا گولہ بارود کی تصاویر موجود تھیں۔
بارہ سالہ جمیل حسن کہتے ہیں کہ چھ ماہ قبل وہ اپنے دوستوں کے ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک راکٹ دیکھا اور فوری طور پر اپنے گاؤں کے بزرگوں کو بتایا جس کے بعد انہوں نے ڈی مائنرز کو آگاہ کردیا۔
نک پونڈ کہتے ہیں کہ مائنز اور آرڈننس کو دیکھ کر بچوں کو یہ لگتا ہے جیسے یہ کوئی کھیلنے کی چیز ہے۔
انہوں نے کہا مثال کے طور پر سوویت دور کی تتلی نما مائن (پی ایف ایم-ون) اپنے پروں والی شکل کی وجہ سے “اٹھانے کے لیے بہت پُرکشش ہے۔”
برطانوی تنظیم ہالو کے یونٹ کمانڈر سید حسن مایر کے مطابق بچے بھی گولہ بارود میں استعمال ہونے والے “خوب صورت اور جدید رنگوں” کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح کچھ رنگ دھوکہ دینے والے بھی ہوتے ہیں جیسے سنہری رنگ کے گولہ بارود جو غریب ممالک میں اسکریپ کی تلاش کرنے والوں کو قیمتی دھات کی طرح نظر آتا ہے۔
نک پونڈ کا کہنا تھا کہ بچے عام طور پر سوچتے ہیں کہ یہ سونا ہو سکتا ہے۔ وہ اس کے اوپر کے حصے کو حاصل کرنے کے لیے اسے پتھر یا ہتھوڑے سے مارتے ہیں۔
صرف بچے ہی نہیں بلکہ ڈی مائنرز کے لیے بھی جنگ کی ان باقیات کا خطرہ موجود ہے اور مئی کے اوائل میں ہالو اپنے دو ساتھیوں کو کھو چکی ہے۔
زبتو مایر کہتے ہیں کہ “بعض اوقات جب میں بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے جاتا ہوں تو اپنے گھر والوں کو فون کرکے کہتا ہوں کہ بس کچھ بھی ہو جائے میں ان سے پیار کرتا ہوں۔”