لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) پنجاب کے شہر سرگودھا کے علاقے مجاہد کالونی میں ہفتے کو ہنگامہ آرائی کے واقعات کے بعد اتوار کو اگرچہ معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں۔ تاہم علاقے میں خوف کی فضا برقرار ہے۔
علاقہ مکینوں کے مطابق کچھ افراد گرفتاری کے خوف سے گھروں سے غائب ہیں۔ چند گھروں کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ علاقے کی بیشتر دکانیں اتوار کو بھی بند ہیں۔ جن افراد کو پولیس نے گرفتار کیا ہے ان کے اہلِ خانہ ان کی رہائی کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔
مجاہد کالونی کا ہر شخص ہفتے کو پیش آنے والے واقعے کو اپنے زاویے سے بیان کر رہا ہے۔
شہر کے دوسرے علاقوں سے بھی لوگ مجاہد کالونی آ رہے ہیں۔ لیکن جب پولیس ان سے سوال جواب کرنا شروع کرتی ہے تو وہ لوگ اپنے خلاف ممکنہ کارروائی کے خوف سے واپس چلے جاتے ہیں۔
پولیس نے علاقے میں بڑی تعداد میں سادہ لباس اہلکار بھی تعینات کیے ہیں تاکہ لوگوں سے مختلف تفصیلات جمع کی جاسکیں اور واقعے کے ماسٹر مائنڈ کا سراغ لگایا جاسکے۔
نذیر مسیح کی جوتے بنانے کی فیکٹری اور گھر کو ہفتے کو مشتعل ہجوم نے آگ لگا دی تھی۔اب اس مقام پر پولیس اہلکار نظر آ رہے ہیں۔
شوز فیکٹری اور گھر کے اندر اور باہر پولیس اہلکار تعینات ہیں تاکہ کوئی مزید نقصان نہ پہنچا سکے۔
عینی شاہدین کے مطابق شوز فیکٹری اور گھر کو آگ لگانے سے پہلے لوٹ مار بھی کی گئی تھی۔ ہجوم میں شامل جس شخص کے ہاتھ جو کچھ آیا وہ لوٹ کر لے گیا۔
مجاہد کالونی کا شمار سرگودھا کے متوسط طبقے کے علاقوں میں ہوتا ہے۔ مجاہد کالونی میں نذیر مسیح سمیت صرف دو مسیحی گھرانے آباد ہیں جب کہ یہاں کی باقی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
نذیر مسیح اور ان کا بیٹا سلطان مسیح مالی لحاظ سے مستحکم اور کاروباری لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جوکہ ایک طویل عرصے سے یہاں شوز فیکٹری چلا رہے ہیں۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
نذیر مسیح اور ہنگامہ آرائی کے الزام میں 534 افراد کے خلاف مقدمات
سرگودھا پولیس نے جلاؤ گھیراؤ کے بعد انسدادِ دہشت گردی ایکٹ اور توہینِ مذہب سمیت دیگر سنگین دفعات کے تحت دو الگ الگ مقدمات درج کیے ہیں۔
مقدمہ نمبر 425/24 ہجوم کے ہاتھوں بدترین تشدد کا نشانہ بننے والے معمر شہری نذیر مسیح کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
اس مقدمے میں توہین مذہب کی دفعات 295 اے، 295 بی اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ 1997/9 لگائی گئی ہے۔
مقدمے کا مدعی میونسپل کونسلر محمد جہانگیر ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق نذیر مسیح نے گلی میں مقدس اوراق نذر آتش کیے جسے محمد عرفان اور محمد اکرام نے دیکھا اور پولیس کی ہیلپ لائن 15 پر اس کی اطلاع کی۔
مقدمہ نمبر 426/24 پولیس افسر شاہد اقبال کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
اس مقدمے میں مجموعی طور پر 534 افراد کو ہنگامہ آرائی، تشدد، شوز فیکٹری اور گھر کو نذر آتش کرنے کا ملزم قرار دیا گیا ہے جن میں سے 44 افراد نامزد اور 450 نامعلوم ہیں۔
مقدمے میں ہنگامہ آرائی اور اشتعال انگیزی پر 40 خواتین کو بھی ملزم قرار دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ 28 نامزد ملزمان کو موقع سے حراست میں لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ہفتے کو مشتعل ہجوم نے نذیر مسیح کی شوز فیکٹری کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی اور اس کے گھر میں ملحقہ چھتوں سے داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔
مشتعل ہجوم نے نذیر مسیح کے مکان کے بجلی کے میٹروں اور ایئرکنڈیشنڈز کے آؤٹر کو ڈنڈوں سے توڑ دیا تھا جب کہ ان کے گھر کو آگ لگا دی تھی جس سے گھر میں ساز و سامان کو نقصان پہنچا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق نذیر مسیح کو ریسکیو کرنے کے لیے پولیس نے مشتعل ہجوم پر شیلنگ کی جب کہ ہجوم میں راستہ بناتے ہوئے جونہی نذیر مسیح کو باہر نکالا گیا تو مشتعل افراد نے حملہ کر دیا۔ ایف آئی آر میں درج ہے کہ نذیر مسیح کو پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے وہ شدید زخمی ہو کر زمین پر گر گئے تھے۔
ایف آئی آر کے مطابق سب انسپکٹر فہد بلال نے دیگر اہلکاروں کے ہمراہ ریسکیو 1122 کی گاڑی خود چلا کر زخمی کو اسپتال پہنچایا اور اس کی جان بچائی۔ مشتعل افراد نے ریسکیو 1122 کی گاڑی پر بھی پتھراؤ کیا جس سے گاڑی کے شیشے ٹوٹ گئے۔
ایف آئی آر کے مطابق مشتعل افراد کے حملے سے پانچ پولیس اہل کار، ایس ایچ او شاہد اقبال، سب انسپکٹر فہد بلال، کانسٹیبل قیصر عباس، کانسٹیبل علی احمد، کانسٹیبل شہزاد علی زخمی ہوئے۔
سرگودھا میں ایک ہفتے کیلئے دفعہ 144 کا نفاذ
سرگودھا میں ایک ہفتے کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے جس کے تحت ضلع بھر میں ہر قسم کے جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے پر پابندی عائد ہوگی اس کا اطلاق فوری طور پر کردیا گیا ہے اور یہ حکم 31 مئی کی رات 12 بجے تک رہے گا۔
دفعہ 144 کا نفاذ ڈپٹی کمشنر سرگودھا کی طرف سے کیا گیا ہے۔
‘کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہوگی’
انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے ہفتہ کی شام سرگودھا کا دورہ کیا اور جائے وقوعہ کا معائنہ کرکے پولیس فورس سے ملاقات کی۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ توہینِ مذہب کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ ان قوانین پر عمل کروانا ریاست کا کام ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان معاملات میں لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں تو اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ پولیس اہلکاروں نے بہادری سے معاملات کو قابو کیا۔ اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لیا یا دہشت پھیلائی تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث افراد کے حوالے سے ہمارا طریقۂ کار واضح ہے کہ کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہوگی اور کسی گناہ گار کو چھوڑا نہیں جائے گا۔
ان کے بقول واقعے کے بعد علاقے میں زندگی معمول پر واپس اگئی ہے۔
آئی جی پنجاب کے مطابق سرگودھا پولیس نے بروقت کارروائی کی اور فوری موقع پر پہنچ کر نہ صرف 10 قیمتی جانوں کو بچایا بلکہ حالات پر بھی قابو پا لیا۔ کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
ان کے بقول مشتعل افراد کے پتھراؤ سے پولیس کے 10 سے زائد افسران اور جوان زخمی بھی ہوئے۔دو ہزار سے زائد افسران اور جوان سیکیورٹی ڈیوٹی پر موجود رہے۔
آئی جی پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کی فوٹیجز موجود ہیں جیو فینسنگ کے ریکارڈ، امن کمیٹی کے اراکین اور تمام شواہد کی روشنی میں قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
ان کے مطابق واقعے کے ماسٹر مائنڈ کا تعین کرکے اس کے خلاف قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔