اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا بلوچ طلبہ کے مقدمے کے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا کہ ہر وہ فرد جس کے حوالے سے لاپتا ہونے کا الزام ہے وہ اپنے خاندان کے پاس ضرور پہنچے گا، لاپتا افراد کا مسئلہ سیاسی حل کا تقاضا کرتا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتا بلوچ طلبہ کے کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی کی جانب سے تحریر کردہ چار صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا کہ ہر وہ فرد جس کے حوالے سے لاپتا ہونے کا الزام ہے وہ اپنے خاندان کے پاس ضرور پہنچے گا۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیشہ اعلیٰ سطح پر بات کی گئی ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جبری طور پر گمشدہ افراد سے متعلق وزرا پر مشتمل کمیٹی نے سفارشات تیار کرلیں، کابینہ سے منظوری کے بعد سفارشات عدالت میں پیش کی جائیں گی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے۔
حکمنامے کے مطابق اٹارنی جنرل کا مؤقف ہے کہ لاپتا افراد کا مسئلہ سیاسی حل کا تقاضا کرتا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ جبری گمشدہ افراد سے متعلق خفیہ اداروں کے ڈی جیز پر مشتمل کمیٹی کے پرانے حکم میں ترمیم کی جارہی ہے، آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی اپنے سیکنڈ ہائی لیول افسران کو کمیٹی کا ممبر بنا سکتے ہیں جب کہ ایف آئی اے اور سی ٹی ڈی کے حکام کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
حکم نامے کے مطابق درخواست گزار وکیل ایمان مزاری نے لاپتا تین طلبہ کی فہرست اٹارنی جنرل کو دی ہے، توقع رکھتے ہیں کہ آئندہ سماعت پر ان تین لاپتا افراد سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔