اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کارِ سرکار میں مداخلت کے الزامات کے تحت گرفتار شاعر و صحافی احمد فرہاد کو اقدام قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ایک مقدمے میں مظفر آباد پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
اسلام آباد سے 17 مئی کو لاپتہ ہونے والے شاعر احمد فرہاد کے خلاف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ 29 مئی کو ہی درج کیا گیا تھا جس کے بارے میں آج (بدھ) اسلام آباد ہائیکورٹ کو احمد فرہاد کی اہلیہ کی جانب سے ان کی گمشدگی کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران آگاہ کیا گیا تھا۔ عدالت نے احمد فرہاد کی وکیل ایمان مزاری کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکام سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ایمان مزاری نے بی بی سی کو بتایا کہ اب اُن کے مؤکل کو باغ پولیس نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی ہدایات پر مظفر آباد کی پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ ایمان مزاری کے مطابق باغ میں حکام کی جانب سے انھیں بتایا گیا ہے کہ احمد فرہاد کے خلاف مظفر آباد میں بھی کارِ سرکار میں مداخلت کے علاوہ اقدام قتل اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے جس میں ان کی حوالگی مطلوب تھی۔
انھوں نے کہا کہ احمد فرہاد کی فیملی اب مظفر آباد جا رہی ہے اور اُن کی اہلیہ اپنے شوہر سے ملاقات کے بعد صورتحال کے بارے میں بتائیں گی۔
ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے واضح کیا ہے کہ جب تک احمد فرہاد سے متعلق اُن کی فیملی آگاہ نہیں کرے گی، اس وقت تک جبری گمشدگی کے معاملے سے متعلق دائر کی گئی اس درخواست کونہیں نمٹایا جائے گا۔
خیال رہے کہ احمد فرہاد کے خلاف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کوہالہ میں مقدمہ آج صبح آٹھ بجے درج کیا گیا تھا جس کے مطابق احمد فرہاد نے کوہالہ پل پر تفتیش کے دوران پولیس سے تلخ کلامی اور بدتمیزی کی جس کے بعد ان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ باغ پولیس کی مدعیت میں درج اس مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فرہاد علی شاہ نے کار سرکار میں مزاحم ہو کر جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
یاد رہے احمد فرہاد کی گمشدگی کا معاملہ سامنے آنے پرشاعر احمد فرہاد کی اہلیہ عین نقوی نے بی بی سی کو بتایاتھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ہفتہ قبل بجلی اور اّٹے کی قیمتوں کے معاملے پر ان کے شوہر نے ذمہ داران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس کے بعد 17 مئی کو ان کے شوہر کسی کام کے سلسلے میں باہر گئے ہوئے تھے اور جب وہ گھر لوٹے اور گھنٹی بجائی تو اتنے میں کچھ نامعلوم افراد وہاں پہنچ گئے اور احمد فرہاد کو زبردستی اٹھا کر لے گئے۔
عین نقوی کے مطابق ان کے شوہر کو گذشتہ دو سالوں سے سنگین نتائج کی دھمکیاں مل رہی تھیں اور انھیں کہا جا رہا تھا کہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے خلاف لکھنا چھوڑ دیں ورنہ ان کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔
عین نقوی کا کہنا تھا کہ اس عرصے کے دوران ان کے شوہر کو تین ٹی وی چینلز سے نکالا گیا تھا۔ انھوں دعویٰ کیا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ لوگ ان ٹی وی چینلز کے مالکان پر دباو ڈالتے تھے کہ وہ احمد فرہاد کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ ان کے بارے میں سوشل میڈیا لکھنا بند کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کے شوہر یہ بات نہیں مانتے تو انھیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا۔
یاد رہے کہ فرہاد کی اہلیہ نے بی بی سی کویہ بھی بتایاتھا کہ احمد فرہاد کے لاپتہ ہونے کے بعد اُن کے موبائل نمبر سے انھیں کسی نامعلوم شخص کی واٹس ایپ کال آئی تھی۔ کال کرنے والے نے انھیں کہا کہ اگر وہ اپنی درخواست واپس لے لیں تو ان کا شوہر اگلے دو روز میں گھر پہنچ جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے انکار پر اس شخص نے کال منقطع کردی اور پھر دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔ واضح رہے کہ احمد فرہاد کی گمشدگی کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ لوئی بھیر میں درج کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ احمد فرہاد کی گمشدگی کے بعد ان کی اہلیہ کی جانب سے ان کی بازیابی سے متعلق دائر کردہ درخواست پر گذشتہ ہفتے ہونے والی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکٹر کمانڈر اسلام کے علاوہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو بھی آج (بدھ) ہونے والی سماعت میں پیش ہونے کے احکامات دیے تھے۔ تاہم آج ہونے والی سماعت میں آئی جی اسلام آباد پیش ہوئے اور عدالت کو آگاہ کیا احمد فرہاد کو باغ پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔