کیا امریکی سعودی ڈیل مشرق وسطیٰ میں جوہری دوڑ کو جنم دے گی؟

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) گزشتہ ہفتے متعدد میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ سعودی عرب اور امریکہ اپنے ”میگا ڈیل” (عظیم معاہدے) کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔

چونکہ یہ ڈیل، ایٹمی پروگرام، باہمی دفاعی معاہدہ اور مصنوعی ذہانت جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں تعاون کے ذریعے امریکہ اور سعودی عرب کو کئی اہم طریقوں سے قریب تر کر دے گا، اس لیے اس کے لیے ”میگا ڈیل” یا ”عظیم معاہدہ” جیسے الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس طرح کے معاہدے کو اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو معمول پر لانے کے ساتھ اب تک جوڑ کر دیکھا جاتا رہا ہے، تاہم اب چونکہ سعودی عرب کا اصرار اس بات پر ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کا نارملائزیشن کا عمل اسی صورت میں ممکن ہے، جب تل ابیب فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے، لیکن اسرائیل اس بات پر مصر ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا، اس لیے اب اس شرط کو ترک کر دیا گیا ہے۔

مئی کے آغاز سے ہی روئٹرز، نیویارک ٹائمز، برطانوی میڈیا ادارے فنانشل ٹائمز اور دی گارڈین کی طرف سے شائع ہونے والی مختلف رپورٹس کے مطابق اب اسرائیل کے بغیر ہی سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ”میگا ڈیل” کا امکان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

اس مجوزہ معاہدے کی تمام تفصیلات ابھی معلوم نہیں ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ کسی بھی ایسے معاہدے میں سعودی عرب کے سویلین جوہری توانائی کی طویل عرصے سے جاری عزائم پر تعاون بھی شامل ہونے کا امکان ہے۔

بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جس عظیم معاہدے کی بات ہو رہی ہے، اس میں جوہری توانائی پر امریکی تعاون کی ضمانت ضرور شامل ہو گی، کیونکہ سعودی عرب ایک مدت سے اس کی چاہت رکھتا ہے اور اس معاہدے کا سب سے متنازعہ پہلو بھی یہی ہے۔

واشنگٹن میں آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن میں عدم پھیلاؤ کی پالیسی کے ڈائریکٹر کیلسی ڈیوین پورٹ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ تنازعہ اس حقیقت سے پیدا ہوتا ہے کہ سعودی یورینیم کی افزودگی اپنی ہی سرزمین پر کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔

یورینیم کی افزودگی کے لیے استعمال میں آنے والی ٹیکنالوجی سویلین نیوکلیئر ری ایکٹرز کے لیے ایندھن پیدا کرتی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کے لیے موزوں یورینیم بھی نکل سکتی ہے۔

کیلسی کا کہنا ہے کہ ”سعودی عرب اس بات پر اٹل ہے کہ اگر اسے افزودگی کا حق نہیں ملا تو، ریاض واشنگٹن کے ساتھ جوہری تعاون کے معاہدے سے الگ ہو جائے گا۔”

گزشتہ ستمبر میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس وقت بین الاقوامی سطح پر سرخیوں میں آئے تھے، جب انہوں نے کہا کہ اگر ان کے ملک کا علاقائی حریف ایران جوہری بم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو سعودی عرب کو بھی اس کی ضرورت ہو گی۔

سعودی عرب پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا

جیسے ہی مئی کے اوائل میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اس معاہدے سے متعلق رپورٹس آنا شروع ہوئیں، امریکی سینیٹر ایڈورڈ مارکی نے صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا۔ مارکی امریکی حکومت کے جوہری ہتھیاروں اور اس کے کنٹرول کے سے متعلق ورکنگ گروپ کے شریک چیئرمین ہیں۔

انہوں نے لکھا، ”مجھے ڈر ہے کہ سعودی عرب، ایک خوفناک انسانی حقوق کا ریکارڈ رکھنے والا ملک، اپنے سول جوہری توانائی کے پروگرام کو مکمل طور پر پرامن مقاصد کے استعمال کرے گا، اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔وہ یورینیم کو افزودہ کرے گا اور جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کرے گا۔”

اس بات کا تو خدشہ ہے ہی کہ سعودی عرب جوہری بم تیار کر سکتا ہے، اس کے ساتھ ہی اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ اگر اسے یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دی گئی تو، خطے میں اس کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔

ایک اطالوی تھنک ٹینک میں جوہری عدم پھیلاؤ پر توجہ مرکوز کرنے والے ایک محقق مینوئل ہیریرا نے گزشتہ برس کے اواخر میں لکھا تھا، ”سعودی عرب کو ایسی صلاحیتیں حاصل کرنے کی اجازت دینے سے بین الاقوامی سطح پر ایک مشکل ترین مثال قائم ہو سکتی ہے۔ یہ ممکنہ طور پر خطے کے دیگر ممالک، جیسے مصر یا ترکی کو بھی، اسی طرح کی جوہری صلاحیتوں کو حاصل کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں پہلے سے ہی غیر مستحکم مشرق میں جوہری پھیلاؤ کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔”

” ہیریرا نے البتہ اس بات کی وضاحت کی امریکہ اس کے لیے سعودی عرب پر کئی شرائط بھی عائد کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”جہاں تک ہمیں معلوم ہے امریکہ ایک ایسا معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ انہوں نے سن 2009 میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ کیا تھا، جس میں انہوں نے دفعہ 123 کا اطلاق کیا تھا۔”

امریکہ کی چین کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش

ان تمام خدشات کے باوجود امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان جوہری تعاون کئی اہم مقاصد بھی ہیں۔ ہیریرا نے چین کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اور کچھ دوسرے ممالک بھی ہیں جو سعودی عرب کو یہ پیشکش کر رہے ہیں۔”

اگر امریکہ سعودی جوہری معاہدہ آگے بڑھتا ہے، تو یہ اس علاقے میں کسی بھی چینی اثر و رسوخ کو ختم کر دے گا۔ تجارتی نقطہ نظر سے اس کے نتیجے میں امریکی کمپنیوں کے ساتھ بہتر معاہدے ہونے کا بھی امکان ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق اس معاہدے پر حالیہ پیش رفت کا تعلق آئندہ امریکی انتخابات سے بھی ہے اور بائیڈن انتظامیہ صدارتی انتخابات سے پہلے اس طرح کا ایک معاہدہ چاہتی ہے۔

دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان قریبی تعاون کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تیل کی قیمتوں سے متعلق سعودی عرب کے فیصلوں پر امریکیوں کا زیادہ اثر و رسوخ رہے۔ امریکی حکومت واضح طور پر انتخابات کے دوران ان قیمتوں کو کم کرنے کو ترجیح دے گی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا معاہدہ مشرق وسطیٰ میں کسی قسم کی جوہری دوڑ کا باعث بن سکتا ہے؟

ہیریرا کہتے کہ ”ایک خطرہ تو ہے۔۔۔۔ اگر آپ ایک ملک کو اس ٹیکنالوجی تک رسائی دیتے ہیں، تو دوڑ تو شروع ہو گی۔” تاہم ان کا یہ بھی خیال ہے کہ کافی حد تک چوکیداری اور نگرانی کے ذریعے، ان خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں